مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


16 اگست کو جڑانوالہ کے کرسچن ٹاؤن میں کیا ہوا

16 اگست کو جڑانوالہ کے کرسچن ٹاؤن میں کیا ہوا

        Author Editor Hum Daise View all posts

 

 

“یہ تحریر 18اگست 2023کوہم سب پر شائع ہو چکی ہے صاحب مضمون کی اجازت اور ہم سب کے شکریہ کے ساتھ شائع کی جارہی ہے’

سمیر اجمل

16 اگست کی صبح فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے مسیحوں کے لئے کسی قیامت سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ 14 اگست کو بھرپور انداز میں یوم آزادی منانے کر 15 اگست کی شام سکون سے اپنے گھروں میں سونے والے مسیحوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ 16 اگست کی صبح ان سے ان کا گھر بار، جمع پونجی، چین سکون سب کچھ چھن جائے گا۔ 16 اگست کی صبح جڑانوالہ کے کرسچن ٹاؤن کے مسیحی اپنے گھروں میں ناشتہ کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک گلیوں میں ایک ہنگامہ برپا ہونا شروع ہو گیا کہ اس بستی پر حملہ ہونے والا ہے۔ بستی خالی کردی جائے جس پر کرسچن ٹاؤن کے مکین جس حال میں تھے۔ ایسے ہی اپنے گھر بار کو چھوڑ کر جان بچانے کے لئے بھاگ نکلے جس کو جہاں پناہ محسوس ہوئی اس نے ادھر کا رخ کر لیا اور پھر جب ساری بستی خالی ہو گئی تو مشتعل افراد نے نہ صرف گھروں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی بلکہ جس کے ہاتھ جو مال لگا، اس نے اس کا صفایا بھی کیا، کرسچن ٹاؤن کے متعدد گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ بستی میں واقع گرجا گھروں کو جلا دیا گیا اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ جڑانوالہ کے دیگر علاقوں میں واقع گرجا گھروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ کسی چرچ کے اوپر لگی ہوئی صلیب توڑ دی گئی تو کسی کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔ کرسچن ٹاؤن کے مکینوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ زر زیور تو دور کی بات، حملہ کرنے والے ان کے مویشی تک کھول کر لے گئے۔ اس حوالے سے وائرل ویڈیوز میں کچھ لوگوں کو بکریاں اور دیگر مویشی لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا۔ اس بارے میں انتظامیہ کا موقف یہ ہے کہ کرسچن ٹاؤن کے رہائشی سلیم مسیح اور اس کے بیٹے نے مبینہ طور پر مقدس اوراق کی توہین کی تھی جس پر اہل علاقہ میں اشتعال پھیلا اور اس کے نتیجے میں گرجا گھروں اور مسیحیوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
اس ضمن میں پولیس تھانہ جڑانوالہ کے انسپکٹر منصور صادق کی مدعیت میں ایک ایف آئی بھی درج کروائی گئی ہے جس میں سلیم مسیح اور اس کے بیٹے راجہ عامر کے خلاف زیر دفعہ 295 بی اور 295 سی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق پولیس انسپکٹر کا کہنا ہے کہ وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ جا رہے تھے تو انہیں کچھ لوگوں نے (ان کا نام ایف آئی آر) میں درج ہے۔ بتایا کہ سلیم مسیح اور اس کے بیٹے نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے اور گستاخانہ باتیں کی ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس انسپکٹر کا بیان ہے کہ جب وہ موقع پر پہنچے تو وہاں پر انہیں مقدس اوراق اور ایک کیلنڈر ملا جس پر گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہ قبضہ میں لے لئے تاہم ملزم سلیم مسیح اور اس کا بیٹا موقع سے فرار ہو گئے۔ مگر کرسچن ٹاؤن کے مکینوں کا موقف اس سے یکسر مختلف ہے۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ سلیم مسیح اور اس کا بیٹا راجہ عامر دنوں ان پڑھ ہیں اور سکول میں نائب قاصد کی نوکری کرتے ہیں۔ 16 اگست کی صبح سلیم مسیح کا بیٹا کام پر جانے کے لئے گھر سے باہر نکلا تو اسے ایک گھر کے باہر ایک کاغذ (جسے پولیس والے کیلنڈر کہہ رہے ہیں۔) لٹکا ہوا نظر آیا جس پر اس کے باپ کی اور اس کی تصویر چسپاں تھی اور ساتھ مقدس اوراق موجود تھے۔ عامر راجہ چونکہ ان پڑھ تھا۔ اس لئے وہ اپنی اور اپنے باپ کی تصویر اٹھا کر گھر لے آیا تاکہ باپ کو بتا سکے اور اتنی دیر میں اس کے محلے دار جن میں سے کچھ مسیحی اور کچھ مسلمان لوگ تھے۔ وہ بھی موقع پر پہنچ گئے جنہوں نے باپ بیٹے کو بتایا کہ ان مقدس اوراق پر کیا لکھا ہے۔ اس پر وہ باپ بیٹا خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلے جس کے بعد پولیس پہنچی اور اس نے وہ مقدس اوراق اور کیلنڈر قبضہ میں لے لئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب وہ کیلنڈر اور مقدس اوراق پولیس کے قبضہ میں آ گئے تھے تو پولیس مشتعل ہجوم کو منتشر کرتی یا پھر ان کو تھانے بلا کر مذاکرات کرتی مگر ایسا نہیں ہوا، مشتعل افراد کرسچن ٹاؤن میں موجود رہے، ہجوم بڑھتا گیا اور پھر چرچوں، گھروں اور قیمتی سامان کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جو کہ دوپہر تک جاری جب ان واقعات کا سوشل میڈیا پر چرچا ہوا تو پھر انتظامیہ کو ہوش آیا جس کے بعد ضلعی انتظامیہ کی جانب سے رینجرز کو بھی طلب کر لیا گیا۔ امن کمیٹی والے بھی پہنچ گئے اور وہ سب کچھ ہونے لگا جو کہ ایسے واقعات کے بعد ہوتا ہے۔ کرسچن ٹاؤن جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا ہے۔ یہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں، اس سے جہاں پاکستان کی مسیحی برادری اضطراب کا شکار ہوئی ہے۔ وہاں پر عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
یہ واقعہ کیوں ہوا ہے۔ اس کی پوری تحقیقاتی ہونی چاہیے، اگر سلیم مسیح اور اس کا بیٹا ان پڑھ ہیں تو پھر یہ تحریر کس نے لکھی ہے اور اگر وہ سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ (چاہے وہ درجہ چہارم کی ہی کیوں نہ ہو) تو اس کا مطلب ہے۔ وہ ذی شعور ہیں اور ان کے ہوش و حواس قائم ہیں تو پھر کیسے کوئی ذی شعور شخص اپنی تصویر اس عبارت کے ساتھ لگا سکتا ہے جس سے اس کی اور اس کے خاندان کے افراد کی جان کو خطرہ ہو اور اگر یہ تصویر سلیم مسیح اور اس کے بیٹے نے نہیں لگائی تو پھر کس نے لگائی ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات جاننا اس لئے ضروری ہیں تاکہ مستقبل میں اسے واقعات نہ ہوں اور ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنا اتنا مشکل بھی نہیں ہیں۔ کرسچن ٹاؤن کے مکینوں کا کہنا ہے کہ کر سچینئی ٹاؤن کے اندر اور باہر سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہیں۔ وہاں سے دیکھا جا سکتا ہے کہ جس جگہ سے یہ کیلنڈر اور مقدس اوراق ملے تھے۔ ادھر کون گیا تھا۔ جیو فینسنگ کے ذریعے بھی پتا کیا جا سکتا ہے کہ جس ٹائم پر کیلنڈر اور اوراق گلی میں رکھنے کی بات ہو رہی ہے۔ ادھر کس کس کا موبائل چل رہا تھا اور کون کون موجود تھا۔ کرسچن ٹاؤن کے مکینوں کا یہ بھی کہنا ہے۔ کیلنڈر پر جو فوٹو لگائی گئی ہے۔ وہ فوٹو لیب کا پرنٹ ہے۔ اس پرنٹ کی مدد سے بھی واقعہ کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے کہ یہ فوٹو کس لیب سے بنوائی گئی ہے اور کس نے بنوائی تھی۔ جڑانوالہ میں شاید پانچ یا دس فوٹو لیب ہوں اگر ان سے سب سے تحقیقات کی جائے تو سراغ مل سکتا ہے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب ریاست صدق دل سے یہ چاہے گی وگرنہ ماضی میں ہونے والے واقعات کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں بے گناہوں پر توہین مذہب کے الزامات لگے، سزائیں بھی ملیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں مگر ان واقعات کی منصوبہ بندی کرنے والے بے نقاب نہیں ہو سکے

 

 

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author