Author Editor Hum Daise View all posts
سموئیل کامران
1988ء کے بعد شاید یہ سب سے بڑا سیلاب ہے جس کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔ اس کے اسباب پر بات بہت ہو چکی۔ اس کے تدارک میں کوتاہیوں پر بحث بھی ہوتی رہے گی۔ اس سے بچنے کے لئے تجاویز بھی آئیں گی اور بیانات بھی آتے جاتے رہیں گے۔ ابھی یہ تباہی سارے پختونخوا سے رینگتی سارے پنجاب کو روندتی سندھ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جانی، مالی اور موائشی نقصانات اندازہ سے باہر ہیں۔ امدادی کارروائیاں ہوتی رہیں گی۔ حکومتی کوششوں کے علاؤہ کئی دوسری تنظیمیں کار خیر کر رہی ہیں ۔ یہ قابلِ ستائش ہیں۔ سب کو اڑوس پڑوس میں جہاں تک ہو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
آج کا موضوع یہ سب نہیں بلکہ سیلاب کے بعد میں کیا کیا تباہی آنے والی ہیں ان پر نگاہ رکھنا ہے۔ جہاں جانور ہلاک ہوئے، وہیں اناج ضائع ہوا اور کھڑی فصلیں برباد ہوئی ہیں۔ ان کے وجہ سے گوشت کمیاب ہوگا۔ اناج کی قیمتوں کو پر لگیں گے۔ امن و امان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ چوری چکاری پر حکام کی نظر رکھنا ہوگی۔ انفراسٹرکچر تباہی ہونے سے ذرائع نقل و حمل متاثر ہونگے۔ ان کی مرمت پر اخراجات عوام کی جیبوں سے ہی ادا ہونگے۔
فقیر کا مقصد قارئین کو ڈرانا نہیں بلکہ حالات سے آگاہ کرنا ہے۔ جب بارشیں عمومی حالات سے زیادہ ہو رہی تھیں تو سیلاب کے خطرے کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ عوام کو عمومی اور حکومت کو خصوصی طور پر تیاری رکھنا چاہیے تھی۔ اب اگلی صورتحال پر بھی عوام اور حکومت کو توجہ دینا چاہیے۔ ورنہ جو نقصان سیلاب سے ہوا ہے ما بعد سیلاب یہ نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں۔ ” پرہیز علاج سے بہتر ہے۔” مقصود یہ ہے کہ اربابِ بست و کشاد کے علاؤہ عوام الناس مزید نقصان سے بچنے کی مناسبت منصوبہ بندی پیشگی کر لیا کریں۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *