Authors Hum Daise View all posts Editor Hum Daise View all posts
انیسہ کنول
جی ہاں خود مختار خواتین کا پہلا چیلنج دوستی کر لو نہیں کرنی تو کسی سے کروا دو بیوی سے نہیں بنتی وغیرہ وغیرہ ،،،،،،، خواتین آج ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں میڈیا ہو، بینکنگ، تعلیم، ٹیکنالوجی یا قانون و انصاف کہیں نہ کہیں کوئی خاتون اپنے عزم اور ہمت سے رکاوٹوں کو توڑ رہی ہے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جب کوئی خاتون کسی نئی فیلڈ میں قدم رکھتی ہے تو اکثر لوگ اس کی محنت، عزم اور قابلیت کے بجائے اس کے تعلقات یا دوستیوں کو زیرِ بحث لاتے ہیں یہ رویہ نہ صرف اس کے پروفیشنل سفر کو مشکل بناتا ہے بلکہ سماج میں عورت کے مقام پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ دیتا ہے اکثر خواتین کہتی ہیں کہ جب وہ کام کے میدان میں آتی ہیں تو ان سے پیشہ ورانہ تعاون کے بجائے ذاتی تعلقات کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے ابتدا میں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں جیسے “ہمارے ساتھ دوستی کر لو، کام آسان ہو جائے گا” یا “کسی سے دوستی کروا دو، بیوی سے نہیں بنتی” بظاہر یہ باتیں معمولی لگتی ہیں مگر درحقیقت یہ خواتین کی عزتِ نفس اور پروفیشنل شناخت پر کاری ضرب ہوتی ہیں جب کوئی خاتون واضح کرتی ہے کہ وہ صرف اپنی محنت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اکثر رویے بدل جاتے ہیں اور پیشہ ورانہ احترام کی جگہ غیر ضروری باتیں لے لیتی ہیں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق 68 فیصد پیشہ ور خواتین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر صنفی امتیاز یا غیر سنجیدہ رویے کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح ایک نجی میڈیا سروے کے مطابق ہر تین میں سے ایک خاتون کو اپنے کولیگز یا سینئرز کی طرف سے غیر پیشہ ورانہ نوعیت کی “ذاتی دوستی” کی پیشکش کی گئی یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کے لیے صرف کام کرنا ہی نہیں بلکہ اپنی پیشہ ورانہ شناخت کو محفوظ رکھنا بھی ایک مستقل جدوجہد بن چکا ہے
سوشیالوجسٹ ڈاکٹر نبیلہ احمد کے مطابق یہ مسئلہ صرف ہراسگی یا امتیاز کا نہیں بلکہ ایک گہری سماجی سوچ کا ہے ان کے مطابق “ہمارا معاشرہ اب بھی عورت کو بطور انسان اور پروفیشنل تسلیم کرنے کے بجائے اسے ذاتی تعلقات کی عینک سے دیکھتا ہے، جس سے اس کی اصل محنت پسِ منظر میں چلی جاتی ہے” ماہرِ نفسیات عائشہ خان کہتی ہیں کہ “جب خواتین بار بار ذاتی نوعیت کے تبصروں یا رویوں کا سامنا کرتی ہیں تو وہ ذہنی دباؤ اور عدم اعتماد کا شکار ہو جاتی ہیں نتیجے میں وہ یا تو فیلڈ چھوڑ دیتی ہیں یا اپنی کارکردگی محدود کر لیتی ہیں”
خواتین کے لیے خود مختار بننا بظاہر ترقی کی علامت ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک نفسیاتی، سماجی اور ادارتی جنگ ہے انہیں اپنے خواب پورے کرنے کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دن رات محنت کے ساتھ ساتھ روایتی سوچوں سے بھی لڑنا پڑتا ہے کئی خواتین نے بتایا کہ جب وہ اپنی پیشہ ورانہ حدود واضح کرتی ہیں تو انہیں “رویہ دکھانے والی” یا “غرور کرنے والی” کہا جاتا ہے گویا اپنی عزتِ نفس قائم رکھنا ہی جرم بن جاتا ہے
وقت کا تقاضا ہے کہ معاشرہ اس سوچ کو بدلے خواتین صرف دوستیوں یا تعلقات کا ذریعہ نہیں بلکہ پروفیشنل دنیا کا لازمی اور برابر حصہ ہیں میڈیا، تعلیمی اداروں اور دفتری ماحول میں جینڈر آگاہی اور حساسیت کی تربیت کو عام کیا جانا چاہیے تاکہ خواتین کو ان کی اصل حیثیت دی جا سکے سماجی کارکن فرزانہ نقوی کے مطابق “جب ہم خواتین کو عزت دیں گے تو وہ خود کو محفوظ محسوس کریں گی عزت کسی تعلق کا انعام نہیں، بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔”
خواتین کو ان کی شناخت ان کی محنت، علم اور استقامت سے دینی ہوگی، نہ کہ ان کے تعلقات سے اگر کوئی خاتون اپنی فیملی کو سہارا دینے یا خود کو مستحکم بنانے کے لیے کام کر رہی ہے تو یہ اس کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی طاقت کی علامت ہے جب ہم عورت کو اس کے کام سے پہچاننا شروع کر دیں گے تب ہی ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکیں گے جو عزت، انصاف اور برابری پر مبنی ہو خاتون کوئی تعلق نبھانے کا وسیلہ نہیں، بلکہ سماج کی بنیاد رکھنے والی طاقت ہے


















1 Comment
Rana Abdul Ghafoor
November 1, 2025, 5:12 amانیسہ جی آپ کی باتیں حقائق پرمبنی ہیں میں خود عرصہ 20 سال سے پرائیویٹ سیکٹر میں نوکری کررہا ہوں اگر کوئی لڑکی یونیورسٹی یا کالج سے فری ہوکر نوکری کے لیے اداروں میں رابطہ کرتی ہے تو سب سے پہلےاس کا حلیہ دیکھا جاتا ہے اگر وہ تھوڑی ماڈرن ہے تو اس کے لیے سب کچھ آسان اور پھر جاب دینے سے پہلے اس سے ڈیل کا معاملہ آتا ہے کہ ہمارے ساتھ چلو گی تو سب ٹھیک رہے گا
REPLYاگر بچی خوددار ہے تو اس کے لیے نوکری بہت مشکل ہوجاتی ہے اور اس سے اتنا کام لیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی جاب چھوڑ دیتی ہے
دوسری بات کہ یہاں بچیاں کالج یونیورسٹی سے آتی ہیں تو یکدم سب کچھ تبدیل ہوتا ہے وہاں اساتذہ اور یہاں بھیڑیے۔۔۔
بہت سی مجبور بچیاں اہنا سب کچھ دے کر نوکری کررہی ہوتی ہیں کہ اللہ معاف کرے۔
ایک باپردہ اور پرھی لکھی عورت اگر سامنے سے گزررہی ہے تو کچھ بھیڑییے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کھڑے کھڑے ان کی اسٹوری بنا دیتے ہیں۔
عورت کو ماں بیٹی بہن تک محدود ہوتے ہوئے اگر یہ معاشرہ سوچے تو ہمارا معاشرہ ریاست مدینہ کی شکل بننا شروع ہوجائے گا ۔
اللہ پاک ہمارا اور ہماری بہنوں بیٹیوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین