مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


پاکستان میں انسانی حقوق: عالمی دن کے آئینے میں اور جڑانوالہ کے زخم

پاکستان میں انسانی حقوق: عالمی دن کے آئینے میں اور جڑانوالہ کے زخم

Author Editor Hum Daise View all posts

فادر خالد رشید عاصی

دنیا بھر میں 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن اُس تاریخی لمحے کی یاد دلاتا ہے جب 1948ء میں اقوامِ متحدہ نے انسانی عظمت کے تحفظ کا چارٹر—عالمی اعلامیۂ حقوقِ انسانی—منظور کیا۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ دن صرف تقاریب اور بیانات کا دن نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی کمزوریاں، کوتاہیاں اور ادھورے وعدے صاف دیکھ سکتے ہیں۔
کاغذی طور پر پاکستان کا آئین شہری آزادیوں، مذہبی حقوق، اظہارِ رائے اور انصاف تک رسائی کی ضمانت دیتا ہے، مگر عملی صورتحال اس سے مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔ ریاستی ادارے کوششیں کرتے ضرور ہیں، مگر کمزور حکمرانی، سیاسی دباؤ، معاشرتی تعصبات اور بے بس طبقات کا شور اس تصویر میں مسلسل دھند ڈالتا رہتا ہے۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتیں آج بھی خوف، عدم تحفظ اور سماجی امتیاز جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ عبادت گاہوں پر حملے، الزام تراشی، جبری تبدیلیٔ مذہب اور نفرت انگیز بیانیے جیسے واقعات اس حساس مسئلے کو مسلسل پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
2023ء کا جڑانوالہ سانحہ آج بھی پاکستانی اجتماعی یادداشت پر تازہ زخم کی طرح موجود ہے۔
صرف ایک الزام کی بنیاد پر چرچز، گھروں، بستیوں اور مقدس نشانات کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ خوفزدہ خاندان، روتے بچے، جلتے گھروں کی راکھ میں ڈوبا ہوا مستقبل—یہ منظر صرف ایک علاقائی حادثہ نہیں تھا، یہ ریاست، معاشرے اور انصاف کے پورے نظام کے لیے سوالیہ نشان تھا۔
ریاست نے بعد ازاں گرفتاریاں کیں، مقدمات بنے، تحقیقات ہوئیں، مگر اصل سوال اپنی جگہ قائم ہے:
کیا جڑانوالہ کے متاثرین کو حقیقی انصاف ملا؟
کیا اُن کے زخموں پر مرہم رکھا گیا؟
کیا اصل محرکات تک پہنچا گیا؟

کیا اس سانحے کے بعد کوئی ایسی اصلاحات ہوئیں جو مستقبل میں ایسے واقعات کو روک سکیں؟
سچ یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے صرف ایف آئی آر، گرفتاریاں یا ٹوکن معافی سے پورے نہیں ہوتے۔ انصاف تب مکمل ہوتا ہے جب متاثرہ شخص خود کو محفوظ اور باعزت محسوس کرے۔
پاکستان میں نظامِ انصاف کی سست روی اور کمزور تحقیقات انسانی حقوق کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جڑانوالہ سے لے کر کوٹ رادھا کشن، یوحنا آباد اور گھوٹکی جیسے واقعات تک ایک مشترکہ پیغام ملتا ہے کہ:
انصاف تاخیر سے بھی ملتا ہو تو انصاف نہیں رہتا۔
ضرورت ہے کہ
مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے،
پولیس نظام کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کیا جائے،
تفتیش جدید تقاضوں کے مطابق ہو،
اور اقلیتی برادری کو تحفظِ احساس کی ضمانت دی جائے۔
مقدمات اور سنسرشپ جیسے مسائل آزادیٔ اظہار کو محدود کرتے ہیں۔ ایک خاموش معاشرہ کبھی جمہوری نہیں ہو سکتا۔
تشدد، ہراسگی، کم عمری کی شادی، جبری مشقت اور جنسی استحصال—یہ سب ابھی تک ہمارے سماج میں زندہ مسائل ہیں۔
مہنگائی، بے روزگاری اور صحتمند زندگی کے بنیادی مواقع کی کمی بھی انسانی حقوق ہی کا مسئلہ ہے۔ بھوک، خوف اور جہالت آزادی کا مذاق اڑا دیتی ہیں۔
انسانی حقوق محض قوانین کا مجموعہ نہیں، یہ انسانی وقار کی حفاظت کا وعدہ ہیں۔
مسیحی تعلیمات سمیت ہر مذہب انسان کی حرمت اور انصاف کے تصور پر زور دیتا ہے۔
مصیبت زدہ افراد، اقلیتوں، غریبوں اور محروموں کا ساتھ دینا مذہبی اور اخلاقی دونوں حوالوں سے ہمارا فرض ہے۔
پاکستان کو صرف بہتر قانون سازی نہیں، بہتر سوچ، بہتر طرزِ حکمرانی اور بہتر معاشرت درکار ہے۔
جڑانوالہ جیسے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ نفرت ایک چنگاری سے بھڑکتی ہے، مگر محبت، تحمل اور باہمی احترام ہی اس آگ کو بجھا سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں یہی سبق دیتا ہے:
محفوظ پاکستان وہ ہے جہاں چرچ کی گھنٹی، مسجد کا اذان، گردوارے کا کیرتن اور مندر کی گھنٹی—سب برابر احترام کے ساتھ گونج سکیں

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author