Author Editor Hum Daise View all posts
سموئیل بشیر
پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب اور کم عمری کی شادی ایک سنجیدہ سماجی و قانونی مسئلہ ہے جو پچھلے کئی برسوں سے بار بار منظر عام پر آیا ہے۔ متاثرہ خاندانوں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ زیادہ تر واقعات میں کم عمر بچیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کروا کر شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں سراپا احتجاج ہیں۔ اس صورتحال نے ایک طرف انسانی حقوق کے تحفظ پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں تو دوسری طرف ملک کے مختلف قوانین کے درمیان تضاد کو بھی نمایاں کیا ہے۔
پاکستان میں شادی کی عمر کے حوالے سے مختلف قوانین رائج ہیں۔ سندھ اسمبلی نے ۲۰۱۳ء میں ’’سندھ چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ‘‘ منظور کیا جس کے تحت شادی کے لیے کم از کم عمر لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے ۱۸ سال مقرر کی گئی۔ مئی ۲۰۲۵ء میں اسلام آباد میں بھی ’’اسلام آباد چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ‘‘ نافذ ہو گیا، جس کے تحت وفاقی دارالحکومت میں شادی کی عمر ۱۸ سال مقرر کی گئی ہے۔
اس کے برعکس پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اب بھی پرانا ’’چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ ۱۹۲۹ء‘‘ نافذ ہے، جس کے تحت لڑکی کی شادی کی عمر 16 سال اور لڑکے کی ۱۸ سال مقرر ہے۔ اگرچہ پنجاب اسمبلی نے حالیہ برسوں میں اس قانون میں کچھ ترامیم کی ہیں (مثلاً سزاؤں میں اضافہ کیا گیا ہے) لیکن عمر کی حد تبدیل نہیں کی گئی۔ یہی وہ بنیادی تضاد ہے جو ملک کے اندر مختلف قوانین کو ایک دوسرے سے متصادم کر دیتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ایک حالیہ مقدمے میں واضح کیا کہ لڑکے اور لڑکی کی شادی کی عمر میں فرق آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، جو تمام شہریوں کو برابری کا حق دیتا ہے۔ عدالت نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ شادی کے معاملے میں صنفی بنیاد پر الگ الگ عمر مقرر کرنا نہ صرف امتیازی رویہ ہے بلکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی بھی ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی مزید دلیل فراہم کرتا ہے کہ قومی سطح پر یکساں قانون سازی ناگزیر ہو چکی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں کئی کیسز ایسے سامنے آئے ہیں جہاں سندھ سے متاثرہ بچیوں کو پنجاب منتقل کر کے شادیاں کی گئیں تاکہ وہاں کے قانون کا سہارا لے کر نکاح کو قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ اس رجحان نے پنجاب کو ایک طرح کا ’’محفوظ علاقہ‘‘ بنا دیا ہے جہاں کم عمری کی شادی کرنے والے عناصر کو تحفظ ملتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف عدالتوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے بلکہ متاثرہ بچیوں کے انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اگرچہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تاحال ایسے کیسز رپورٹ نہیں ہوئے جن میں سندھ یا وفاق سے بچیوں کو وہاں لا کر شادی کی گئی ہو، لیکن ان صوبوں میں شادی کی عمر کا تعین وفاقی قانون سے مختلف ہونے کے سبب ایک قانونی تضاد بہرحال موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں یہ صوبے بھی ایسے ہی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں جیسے آج پنجاب کو درپیش ہیں۔
پاکستان میں کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے اہم ضرورت یکساں قومی قانون سازی کی ہے۔ جب تک پورے ملک میں شادی کی عمر ۱۸ سال مقرر کر کے اس پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا، اس تضاد کا فائدہ اٹھا کر متاثرہ بچیوں کو اپنے حقوق سے محروم کیا جاتا رہے گا۔
نکاح رجسٹراروں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔
جبری تبدیلی مذہب کے کیسز میں فوری تحقیقات اور متاثرہ بچی کے بیانات کو ترجیح دی جائے،
اور عوامی آگاہی مہم کے ذریعے کم عمری کی شادی کے سماجی و نفسیاتی نقصانات کو اجاگر کیا جائے۔
یوں پاکستان اپنے بچوں، خصوصاً بچیوں کے تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے تقاضوں پر بھی پورا اتر سکتا ہے۔


















3 Comments
Irfan Nasir Minhas
August 30, 2025, 6:48 pmBeautiful information on this topic keep it up 👍👍👍👍👍👍👍
REPLYSamuel Bashir@Irfan Nasir Minhas
September 1, 2025, 8:01 amThank you so much for compliment.
REPLYSamuel Bashir@Irfan Nasir Minhas
September 1, 2025, 8:01 amThank you so much for compliment.
REPLY