Author Editor Hum Daise View all posts
خالد شہزاد
پاکستان میں آج بھی امتیازی قوانین اور فتووں نے اقلیتوں کی زندگیوں کو ایک مستقل خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ اگر کسی گھر کا بیٹا یا بیٹی کم عمری میں دباؤ یا فریب سے مذہب بدل لیتا ہے، تو بجائے اس کے کہ بچے کو والدین کے پاس واپس کیا جائے، الٹا اس خاندان کے خلاف فتوے لکھ دیے جاتے ہیں یا سالہا سال تک مقدمات کی مار دی جاتی ہے۔یہ ریتی رواج دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں اور بدلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دنیا ماڈرن کلچر کی طرف بڑھ چکی ہے، والدین اپنے بچوں کو تعلیم اور آزادی دے رہے ہیں، لیکن پاکستان میں آج بھی دماغی آزادی سب سے بڑی محرومی ہے۔یاد رکھیں! دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہوتا ہے۔ یہاں کا مولوی کلچر ایک کھلی بارودی سرنگ کی طرح ہے، جو کسی بھی وقت کہیں بھی پھٹ سکتا ہے اور معصوم زندگیاں اجاڑ دیتا ہے۔پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ایک نازک اور متنازع مسئلہ ہے، جسے مذہبی جذبات کے تحفظ اور انسانی حقوق کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قانون کے غیر واضح ہونے کی وجہ سے اس کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے، خاص طور پر کرسچین برادریوں کے خلاف خاص کر کوٹ رادھا کشن کے رہائشی شمع اور شہزاد، گوجرہ، شانتی نگر، جوزف کالونی ، سرگودہا کے رہاشی نزیر مسیح، سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی فیکٹری کے سری لنکن مینجر، سوات میں سیالکوٹ کے رہائشی سیاح، پشاور کے ندیم جوزف اور کرسچین ٹاؤن جڑانوالہ جہاں 26 سے زیادہ چرچ جلائے گئے اور 100 سے زائد گھروں کو مبعینہ طور سے توہین قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں لوٹ مار کرنے کے بعد جلایا گیا، جلاؤ گھراؤ اور لوٹ مار کرنے والے افراد کے خلاف پولیس کی مدعیت میں 26 کے قریب ایف آئی آر درج ہوئیں اور تقریباؔ تین سو افراد کو گرفتار کیا گیا بعد ازاں پولیس ہی نے بہت سے افراد کو کلین چٹ دی اور بچے کھچے افراد کو مقامی عدالت نے ایک انتہا پسند مزہبی جماعت کے دباؤ میں آ کر ضمانتوں پر رہا کر دیا لیکن پاکستان کے مفتیان اگر کھلے عام ایسا طرز عمل کریں تو انکے لیے عام معافی ہے۔جیسا کے 19 اگست 2023 کو جامع مسجد غوثیہ رحیم آباد راولپنڈی میں مفتی حنیف کے خلاف تھانہ ائیرپورٹ میں حافظ شاہد اور عمران اصغر نے 298 اے کی ایف آئی آر کٹوائی مگر بعد میں مفتی حنیف قریشی نے وضاحتی بیان کے تحت معافی مانگی اور انکی معافی قبول ہوئی۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے مفتی طارق مسعود نے 2022 اور 2024 میں متعدد بار مسلمانوں کے مزہبی جذبات مجروح کیے ، لیکن بعد میں معافی کے طلبگار ہوئے اور معاف کر دیئے گئے لیکن نا مفتی طارق کے گھر کا شیشہ ٹوٹا اور نا ہی انکے گھر والوں کا گھیراؤ ہوا۔ حال ہی میں مسیحیوں کے خلاف مزہبی نعفرت کا گھمبیر پروپیگنڈہ کو پھیلانے والے جہلم کے رہائشی انجینئر مرزا نے مسیحیوں کی کتاب انجیل شریف کے حوالہ سے ایسی متنازع منطق پیش کرکے نا صرف مسیحیوں کے خلاف شر انگیزی کی بلکہ مرزا کے لاکھوں طالب علموں اور چاہنے والوں کے دل و دماغ میں نفرت کا بیج بونے کی کوشش کی ہے حالانکہ انجیل شریف میں نا تو کسی مزہب کے متعلق کو منفی آیت ہے اور نا ہی کسی نبی کے بارے میں کوئی گستاخانہ مواد موجود ہے مگر انجینئر مرزا نے اپنی دانست میں اور من گھڑت منطق کے زریعہ گستاخی کر کے کروڑوں مسلمانوں کے جزبات کو مجروح کیا تاہم مرزا کے خلاف توہین رسالت کی دفعہ کے تحت ایف آئی آر بھی درج ہو گئی لیکن مرزا کی حمایت میں کئی لوگ میدان میں کود پڑے۔ کیوں؟ کیا مرزا انجینئر کے انجیل شریف پر لگائے گئے الزامات درست ہیں؟ کیا پاکستانی مسیحی اپنے عقیدہ کو چھوڑ مرزا کے عقیدہ کے مطابق زندگی بسر کریں؟ مرزا کی جانب سے توہین مزہب کے الزام کے تحت سفارشات مسیحیوں کے خلاف کھلی نعفرت اور انٹرفیتھ کے حکومتی ایجنڈا سے متصادم ہیں مرزا کے بیانات سے پاکستان بھر کے مسیحیوں میں تشویش کی نئی لہر نے جنم لیا ہے کیونکہ پاکستان میں عرصہ دراز سے انٹرفیتھ ہارمنی کے زریعہ تمام مزاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دوسروں کے عقائد کی قبولیت اور انبیاء اکرام کی عزت و نابوس کی اہمیت کو اجاگر کیا جا رہا ہے لیکن مرزا جیسے عقل قل مزہبی راہنما قتل و غارت اور جبری عقائد کو منوانے کی خاطر تفرقہ بازی اور نعفرت کو بڑھانے جیسے اقدامات کے حامی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قانونی اصلاحات، عدالتی احتساب اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس کے استعمال کو منصفانہ بنایا جائے تاکہ کوئی بھی مفتی یا مولوی اپنی مرضی کا فتوئ یا حکمنامہ جاری نا کر سکے اور کرسچین کمیونٹی سمیت دیگر مزہب کو سکون کا سانس لینے دیا جائے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *