Author Editor Hum Daise View all posts
کنزہ کنول
سیلاب کو ہم قدرتی آفت کہہ سکتے ہیں مگر آفات کے بعد جن رویوں کا سامنا متاثرین کو کرنا پڑتا ہے وہ کسی طور قدرتی نہیں کہلائے جا سکتے یہ انسانی فیصلے، انسانی رویے اور انسانی بے حسی کا نتیجہ ہیں۔ جب پانی گھروں کو بہا لے جائے، فصلیں ڈبو دے اور مال مویشی ختم کر دے تو اصل امتحان قدرت کا نہیں بلکہ ہمارا ہوتا ہے کہ ہم اس آفت کے بعد کس حد تک انسانیت کا فرض نبھاتے ہیں افسوس کہ ہمارے ہاں یہ امتحان اکثر ناکام ہو جاتا ہے۔ امدادی سامان آتا ہے، بڑے بڑے بیانات دیے جاتے ہیں، فوٹو سیشن ہوتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں تک مدد پوری نہیں پہنچ پاتی شہروں اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے والے چند مقامات پر تو امداد کا ہجوم ہوتا ہے لیکن وہ بستیاں جو کیچڑ میں دبی رہتی ہیں، جہاں نہ کیمرے پہنچتے ہیں نہ نمائندے، وہاں کے لوگ محرومی کے اندھیروں میں ہی جیتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ فوٹو سیشن کرنے کے دو پانی کے کریٹ اور کچھ چنا چاول کے شوہر ہاتھ میں لے کر خود کو مٹی دھول لگا کر ایسے ایکٹینگ کر رہے ہوتے جیسے ان کے علاؤہ کوئی نہیں ان آفت زدہ لوگوں کا خیر خواہ اس پوسٹ پر لوگ بلے بلے کر رہے ہوتے ایک تو آفت ان پر دوسرا یہ فوٹو لوگ ان کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جو امداد پہنچ بھی جائے وہ بھی اکثر بے انصاف تقسیم کی نذر ہو جاتی ہے کہیں مقامی بااثر افراد اسے اپنے ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے بانٹتے ہیں، کہیں رشتہ داری اور تعلق داری کا پیمانہ بنا دیا جاتا ہے، تو کہیں یہ سامان گوداموں میں بند کر کے اپنی مرضی کے وقت پر استعمال کیا جاتا ہے ایسے ہی صبح کے ٹائم ایک صاحب نے اوچ شریف سے ویڈیو بھیجی کہ راشن کا پورا ٹرک وہاں کے ووٹروں میں بانٹ رہے تھے بے حسی کی انتہا ہی کر دی نتیجہ یہ کہ وہ ہاتھ جو سب سے زیادہ خالی ہیں، وہ پیٹ جو سب سے زیادہ بھوکے ہیں، اور وہ بچے جو سب سے زیادہ ناتواں ہیں، ان تک امداد سب سے کم پہنچتی ہے یہ سب محض انتظامی کمزوری نہیں بلکہ اجتماعی بے حسی ہے آفت کے وقت قوم کو متحد ہونا چاہیے، مگر ہم اکثر موقع پرستی، دکھاوے اور ذاتی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں اگر امداد دینے والے ادارے اور حکومت یہ ذمہ داری ایمانداری سے پوری کریں تو نہ صرف متاثرین کا دکھ کم ہو سکتا ہے بلکہ ان کے دلوں میں یہ یقین بھی جاگزین ہو گا کہ وہ اکیلے نہیں سیلاب قدرتی امتحان ہے مگر اس کے بعد کا منظرنامہ انسانی امتحان ہے اور افسوس یہ ہے کہ ہم بار بار اس امتحان میں فیل ہو رہے ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ امداد کو دکھاوے سے نکال کر شفافیت، انصاف اور حقیقی ضرورت مندوں تک رسائی کے اصول پر استوار کیا جائے، ورنہ سیلاب کا نقصان صرف پانی نہیں کرے گا بلکہ ہماری بے حسی بھی انسانیت کو ڈبو دے گی


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *