Author Editor Hum Daise View all posts
تحریر: سموئیل بشیر
پاکستان کے آئین پر اکثر یہ بحث چلتی ہے کہ آیا یہ اقلیتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے یا اس میں مذہبی امتیازات موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین کی بنیادی روح مساوات اور شہری آزادیوں پر مبنی ہے، اور اس میں کئی دفعات ایسی ہیں جو اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتی ہیں۔
آرٹیکل 20 ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل اور تبلیغ کی آزادی دیتا ہے۔
آرٹیکل 22 کے تحت کوئی طالب علم ایسے مذہبی مضامین پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے مذہب کے خلاف ہوں۔
آرٹیکل 25 واضح کرتا ہے کہ سب شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور کسی کے ساتھ مذہب یا جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہوگا۔
آرٹیکلز 26 اور 27 ملازمت اور تعلیمی اداروں تک مساوی رسائی کی ضمانت دیتے ہیں، جبکہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لیے کوٹہ مختص کرنا ان کی نمائندگی کو یقینی بناتا ہے۔
آرٹیکل 36 ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے۔
کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آئین مذہبی امتیاز پر مبنی ہے کیونکہ صدر اور وزیراعظم کے عہدے صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ بات درست ہے، لیکن یہ پابندی صرف انہی دو اعلیٰ مناصب تک محدود ہے۔ اس کے برعکس پارلیمان، کابینہ، عدلیہ، فوج اور دیگر اداروں کے دروازے اقلیتوں کے لیے کھلے ہیں۔ مزید یہ کہ اقلیتوں کے لیے اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں بھی رکھی گئی ہیں تاکہ وہ قانون سازی کا حصہ بن سکیں۔
آئین پاکستان کی روح مساوات اور شمولیت ہے۔ یہ اقلیتوں کو مذہبی آزادی، تعلیمی تحفظ، روزگار کے مواقع اور سیاسی نمائندگی فراہم کرتا ہے۔ صدر اور وزیراعظم کے لیے مذہبی شرط ضرور ایک استثنا ہے، لیکن مجموعی طور پر آئین اقلیتوں کے لیے مساوی تحفظ اور مواقع کی ضمانت دیتا ہے۔ اصل چیلنج ان اصولوں پر مکمل عمل درآمد ہے، جو ہماری ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *