Author Editor Hum Daise View all posts
رقیہ نعیم
عورت جسے کہا تو صنف نازک جاتا ہے لیکن میری جو اپنی رائے ہے وہ یہ ہے کہ عورت صنف نازک صرف کتابوں میں ہے ، عورت صنف نازک صرف کسی شاعر کی شاعری میں ہے ، عورت صنف نازک صرف ڈراموں اور فلموں میں دکھائی جاتی ہے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے کیونکہ ایک گھر میں بیٹھنے والی خاتون کو تو شاید ہمارا معاشرہ صنف نازک مان بھی لیتا ہے لیکن ایک ورکنگ لیڈی جو کسی مجبوری کی وجہ سے گھر کی دہلیز پار کرکے کام کرتی ہے یا ملازمت کرتی ہے اور اپنی محنت سے چار پیسے کما لیتی ہے تو پھر وہ عورت صنف نازک سے ایک خود مختار عورت میں بدل جاتی ہے اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسی عورت بس سب کی نظر میں مشین بن جاتی ہے جس کے نہ تو جذبات ہوتے ہیں اور نہ خیالات ۔۔۔ ہو سکتا ہےمیری اس رائے سے بہت سے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اختلاف ہو لیکن میری نظر میں ایک خود مختار عورت کی زندگی میں آزادی اور اپنی پہچان کی خوشبو تو ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ کئی مجبوریاں اور دباؤ بھی جڑ ے ہوتے ہیں اور وہ آزاد ہو کی قید ہوتی ہے ۔
اب ذہن میں فورا جو سوال آتا ہے وہ یہ کہ ایک خود مختیار عورت قید کیسے ہو سکتی ہے ؟ بات تو یہ بھی ٹھیک ہے کہ ایسی عورت جو خود کما رہی ہے اپنا اور اپنے گھر والوں کی تمام بنیادی ضروریات پوری کر رہی ہے وہ قید کیسے ؟
تو جناب ایک کمانے والی عورت کی دکھ جو کمانے کے چکر میں اس کی روح میں سرایت کر گئے وہ نظر کبھی کسی کو نظر نہیں آتے
جس گھر میں وہ عورت رہتی ہے اس گھر کے مکین اس کے دکھ کو نہیں سمجھ سکتے تو پھر باقی لوگوں سے شکوہ تو بنتا نہیں ۔۔۔۔
میں ایک عورت جب کمانے لگتی ہے اپنی رائے دینے لگتی ہےیا اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے لگتی تو مردانہ سوچ کو خطرہ پڑ جاتا ہے اور مرد کبھی بھی ایک با اختیار عورت کو برداشت نہیں کر سکتا وہ اسے پیسے کمانے والی مشین کے طور پر لیتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ایک عورت پیسے کو کما کر دے لیکن اپنی رائے کا اظہار نہ کرے اور غلاموں کی طرح مرد کی ہاں میں ہاں ملائے جب ایسی صورتحال ہو تو بتائیں عورت قید نہیں ہے تو کیا ہے؟
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کی روایتی سوچ یہی ہے کہ عورت کو اپنے قابو میں رکھنا چاہیے کیونکہ عورت معاشی طور پر اگر مضبوط ہو تو مرد کی مردانگی کو خوف لاحق ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر حال میں عورت کو اپنے تابع رکھنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ عورت کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا اور اس طرح قابو رکھنے کووہ تحفظ کا نام دیتے ہیں ۔
اور اگر قانون کی بات کی جائے تو بہت سی جگہوں پر قانون تو عورت کو آزادی دیتا ہے لیکن عملی طور پر خاندان ،محلہ اور معاشرتی دباؤ عورت کی آزادی چاہے وہ معاشی ہو یا سوچ اس کو قید کر دیتے ہیں ۔ جب ایک عورت کو اپنی پسند نہ پسند ، سوچ کی آزادی نہ ہو ،فیصلہ سازی کااختیار نہ ہو تو پھر معاشی طور پر تو مضبوط ہے لیکن ذہنی طور پر وہ قید ہی ہے ۔
میرا ماننا یہی ہے کہ عورت کو قید کرنے کی اصل وجہ اس کی حفاظت نہیں بلکہ سماج کا اختیار کھو دینے کا خوف ہے۔۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *