Author Editor Hum Daise View all posts
پاکستان کی ریاست کی بنیاد 1947ء میں اس وعدے پر رکھی گئی تھی کہ یہاں ہر مذہب، نسل اور طبقے سے تعلق رکھنے والا شہری برابر کے حقوق رکھے گا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو کہا تھا:
“آپ آزاد ہیں”، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنے گرجا گھروں یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔”
مگر آج، 77 برس بعد، یہ جملہ محض تقریری حوالہ بن چکا ہے۔
ریاست کے قانون، مقامی حکومتوں کے کردار، اور سیاسی نمائندگی کے باوجود اقلیتیں اب بھی تحفظ، انصاف اور مساوات سے محروم ہیں، پاکستان کا آئین اقلیتوں کے تحفظ اور مساوی شہری حقوق کی ضمانت دیتا ہے، مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب قانون کمزور پڑ جائے اور سیاست مفاد پرستی میں بدل جائے، تو اقلیت صرف “شماریاتی وجود” رہ جاتی ہے — انسانی نہیں۔پاکستان کا آئین 1973ء اپنے آرٹیکل 20، 25، 26، 27 اور 36 میں اقلیتوں کے مذہبی، تعلیمی، روزگار اور نمائندگی کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
آرٹیکل 20: مذہب کی آزادی اور عبادت کی اجازت دیتا ہے۔
آرٹیکل 25: تمام شہریوں کو قانون کے سامنے برابر قرار دیتا ہے۔ آرٹیکل 36: ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں کے جائز مفادات کا تحفظ کرے۔لیکن یہ آئینی دفعات کاغذ پر تو مضبوط دکھائی دیتی ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کا نظام کمزور، غیر مؤثر اور بعض اوقات مکمل طور پر غیر موجود ہے۔
اگست 2023 کا وہ دن پاکستان کی تاریخ پر ایک اور سیاہ داغ بن کر ثبت ہوا، جب جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں کو مذہبی الزام کی بنیاد پر نذرِ آتش کر دیا گیا۔
ریاست نے اس سانحے میں خود مدعی بننے کا اعلان کیا، مگر دو سال گزرنے کے بعد بھی پولیس کی غیر جانبدار رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔ملزمان ضمانتوں پر آزاد ہیں، اور متاثرین انصاف کے انتظار میں دربدر۔یہ وہ مقام ہے جہاں ریاست کا کردار محافظ نہیں، بلکہ خاموش شریکِ جرم محسوس ہوتا ہے۔
اگر عدلیہ کو غیر جانبدار رپورٹیں تک نہ مل سکیں، تو انصاف کا دروازہ کس نے بند کر رکھا ہے؟
سرگودھا کے نزیر مسیح پر قرآن کے اوراق جلانے کا الزام لگا اور قانون نافذ کرنے کے بجائے ہجوم نے “فیصلہ” سڑک پر سنایا۔
ریاستی ادارے دیکھتے رہے، اور قانون کا تقدس پامال ہوا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب آئین کے آرٹیکل 4 (“ہر شہری کو قانون کے مطابق تحفظ کا حق ہے”) کو خاک میں ملا دیا گیا۔
ریاست نے اگر اس دن ایک شہری کی حفاظت نہ کی، تو دراصل اپنے آئین کی حفاظت بھی نہ کی۔
سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں کم عمر اقلیتی لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور شادی کے واقعات انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں۔
اقوام متحدہ کا کنونشن برائے حقوقِ طفل (CRC) جس پر پاکستان دستخط کر چکا ہے، صاف کہتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کو مذہبی یا ازدواجی فیصلوں میں زبردستی شامل نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن پاکستان میں “روحانیت” کے نام پر قانون کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔
ریاستی اداروں کی یہ خاموشی صرف قانونی کمزوری نہیں بلکہ اخلاقی مجرمانہ غفلت بھی ہے۔
ایک ماہ کے دوران کراچی میں پانچ مسیحی مزدور گٹروں میں اتر کر زہریلی گیس سے ہلاک ہو گئے، یہ وہ مزدور تھے جنہیں محفوظ آلات، ماسک یا آکسیجن سلنڈر تک فراہم نہیں کیے گئے۔
پاکستان کا لیبر قانون 1934ء اور فیکٹری ایکٹ 1997ء مزدوروں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، مگر یہ قوانین صرف فائلوں میں بند ہیں۔ریاستی ادارے اس سانحے کے بعد خاموش رہے، اور کسی نے یہ سوال نہ اٹھایا کہ اگر مرنے والے مسلمان ہوتے تو کیا ردِعمل مختلف ہوتا؟ دوسری جانب سندھ حکومت نے اقلیتوں کے تعلیمی وظائف میں مسیحی طلبہ کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔یہ اقدام نہ صرف آئین کے آرٹیکل 27 (“روزگار اور مواقع میں امتیاز کی ممانعت”) کی خلاف ورزی ہے بلکہ سندھ اقلیتی کمیشن ایکٹ 2016ء کی روح کے بھی منافی ہے، مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی نوید انتھونی اور مخصوص نشست پر مسیحی ایم پی اے روما مشتاق بھی اس ناانصافی پر ناصرف بے خبر رہیں بلکہ خاموش رہیں جسکی وجہ سیاسی نمائندگی کا مقصد اگر صرف کرسی اور پروٹوکول بن جائے، تو پھر اقلیتوں کے لیے سیاست محض ایک علامتی شرکت رہ جاتی ہے جبکہ حقیقی نمائندگی نہیں ہوتی۔ مقامی حکومتیں بنیادی سطح پر انصاف، صفائی، تعلیم، روزگار اور شہری خدمات کی ذمہ دار ہیں۔لیکن جب اقلیتی برادری کے علاقوں میں سیوریج، تعلیم یا صحت کے معاملات آتے ہیں، تو یہ ادارے کہیں نظر نہیں آتے۔کراچی، لاہور، فیصل آباد اور حیدرآباد کے اقلیتی محلے ہمیشہ سے بلدیاتی بے توجہی کا شکار ہیں، یہی وہ جگہ ہے جہاں ریاست کی ناکامی سب سے زیادہ واضح ہوتی ہے — جہاں گلیوں میں پانی جمع ہے، مگر وعدے خشک۔ پاکستان کی سیاست میں اقلیت کا ذکر صرف بین الاقوامی دباؤ یا اقلیتوں کے قومی دن پر ہوتا ہے نہ قانون ساز اسمبلیوں میں ان کے حقیقی مسائل کی گونج ہے، نہ عدالتوں میں انصاف کی تسلی بخش مثالیں۔
اقلیتوں کی مشکلات کو اگر سیاست اپنی ترجیح نہ بنائے تو وہ ریاست کے دائرے سے باہر نہیں، مگر انصاف کے دائرے سے ضرور باہر ہو جاتی ہیں۔
ریاست کی مضبوطی قانون کی بالادستی میں ہے، اور قانون کی روح انصاف ہے ،جب انصاف مذہب، رنگ یا عقیدے کے ترازو میں تولا جائے، تو ریاست صرف “حکومت” رہ جاتی ہے، “وطن” نہیں۔
اقلیتوں کا تحفظ صرف ان کی بقا نہیں، بلکہ ریاستِ پاکستان کے آئین کی ساکھ کا امتحان ہے۔
اگر ہم واقعی ایک جمہوری اور اسلامی ریاست کے امین ہیں، تو پہلا فریضہ یہی ہے کہ ہر شہری کے لیے قانون، موقع، اور احترام برابر ہو — چاہے وہ مسجد میں نماز پڑھے یا گرجا گھر میں دعا۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *