مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


صفائی کرنے والوں کا دل اور نظام کی گندگی

صفائی کرنے والوں کا دل اور نظام کی گندگی

Author Editor Hum Daise View all posts

تحریر.سلیمان سلیم پڑھیار

پنجاب کے شہروں کی چمکتی سڑکوں صاف گلیوں اور خوشگوار فضا کے پیچھے کچھ ایسے لوگ چھپے ہوئے ہیں جو روزانہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں وہ خاموش مجاہد جو گٹروں میں اُترتے ہیں زہریلی گیسیں جھیلتے ہیں کچرا چنتے ہیں متلی آور بدبو کو برداشت کرتے ہیں اور پھر بھی وہی ہیں جنہیں ہمارا معاشرہ سب سے کم سمجھتا ہے یہ لوگ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور دیگر شہروں کی نجی صفائی کمپنیوں کے وہ محنت کش ہیں جن کی زندگی آج کل ایک مستقل اذیت بن چکی ہے ہر ماہ سینکڑوں سینٹری ورکرز کو بغیر کسی وجہ بغیر کسی غلطی صرف مالیاتی مفادات کے نام پر نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے تنخواہوں میں کٹوتیاں کرنا معمول بن چکا ہے گنڈا راج اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ افسران کے لیے یہ خبریں نہیں بلکہ روز کے معمول ہیں یہ ظلم اب لاہور تک محدود نہیں رہا قصور، اوکاڑہ، فیصل آباد، شیخوپورہ سمیت کئی شہروں میں یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے کسی کی مرضی ہو تو کسی کی تنخواہ روک لی کسی نے آواز اٹھائی تو نوکری ختم
کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی سننے والا نہیں ایسا لگتا ہے جیسے صفائی ورکرز انسان نہیں بلکہ کوئی مشینیں ہیں جنہیں جب چاہے چلایا جائے اور جب چاہے بند کر دیا جائے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حفاظتی سامان تک میسر نہیں دستانے نہیں ماسک نہیں بوٹ نہیں اور یہی بے بسی کئی گھروں کو موت دے چکی ہے کئی ورکر گٹروں میں دم گھٹنے سے یا زہریلی گیسوں سے جان کی بازی ہار گئے لیکن ان کے لیے کوئی آواز نہیں اُٹھی سوال یہ ہے کہ اگر “صفائی نصف ایمان ہے” تو پھر وہ لوگ جو صفائی کرتے ہیں ان کے ایمان ان کے رزق ان کی عزت ان کی زندگی کی قیمت اتنی کم کیوں ہے؟
دو دو تین تین ماہ کی تنخواہ نہ ملنے سے ان گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑتے ہیں ان کے بچے فیس نہ ہونے پر اسکول چھوڑتے ہیں کرایہ نہ ادا ہو تو مالک مکان دھمکاتا ہے بیماری آئے تو دوا تک نصیب نہیں ہوتی یہ لوگ دوسروں کو صاف ماحول دیتے ہیں مگر خود گندگی ناانصافی اور استحصال میں ڈوبے رہتے ہیں سیاسی و سماجی کارکن آواز تو اٹھاتے ہیں مگر کوئی پالیسی نہیں بنتی کوئی کمیٹی نہیں بیٹھتی کوئی اصلاحی قدم نظر نہیں آتا حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جیسے یہ لوگ پنجاب کی نہیں کسی اور دنیا کی مخلوق ہوں۔
حکومتِ پنجاب کے لیے سوال.
کیا صفائی کرنے والوں کا خون سستا ہے؟
کیا ان کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں؟
کیا ان کی تنخواہ روکنا جرم نہیں؟
کیا ان کی نوکریاں کنٹریکٹ کے نام پر یرغمال بنانا جائز ہے؟
وقت کا تقاضا ہے کہ:
صفائی ورکرز کی نوکریاں مستقل کی جائیں
سیفٹی کِٹ کو قانوناً لازمی قرار دیا جائے
تنخواہوں کی تاخیر پر کمپنیوں پر بھاری جرمانے ہوں
ٹھیکیدارانہ گنڈا راج ختم کیا جائے
ورکرز کے لیے فری میڈیکل اور انشورنس سسٹم ہو
اور سب سے بڑھ کر انسانیت کو قانون سے اوپر رکھا جائے
یہ لوگ ہمارے شہروں کی سانسیں صاف کرتے ہیں
اگر ہم انہیں صاف اور محفوظ زندگی نہ دے سکے تو پھر ہماری ترقی ہمارا نظام اور ہماری انسانیت کسی کام کی نہیں۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author