مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


سماجی ہم آہنگی ہماری ذمہ داری!

سماجی ہم آہنگی ہماری ذمہ داری!

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

تحریر: سموئیل بشیر

کثیرالمذہبی معاشروں میں سماجی ہم آہنگی صرف اخلاقی تقاضا نہیں، بلکہ سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور انسانی حقوق کے تحفظ کا بنیادی ستون مانی جاتی ہے۔ پاکستان، جہاں مسلمان اکثریت کے ساتھ مسیحی، ہندو، سکھ، بہائی، کیلاش اور دیگر مذہبی اقلیتیں آباد ہیں، وہاں سماجی روابط کا توازن اکثر چیلنجز سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ تحقیق اس سوال کا جائزہ لیتی ہے کہ سماجی ہم آہنگی کی ذمہ داری کن عناصر سے جڑی ہے، اور اس کے نتیجے میں حقیقی مذہبی ہم آہنگی کس طرح فروغ پا سکتی ہے۔
پاکستان کی تشکیل کے وقت قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں شہری برابری، مذہبی آزادی اور ریاستی غیر جانبداری کے اصول پیش کیے، جنہیں خطے میں مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد قرار دیا گیا۔ تاہم بعد کے ادوار میں آئینی ترامیم، سیاسی مفادات، فرقہ وارانہ تنظیموں کا ابھار، اور نصابی و عدالتی سطح پر پائے جانے والے تعصبات نے سماجی توازن کو کمزور کیا۔
تحقیقی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ مذہبی اقلیتیں تعلیم، نوکری، انصاف اور مذہبی آزادی جیسے بنیادی حقوق کے حصول میں مسلسل مشکلات سے گزرتی رہی ہیں۔ اس لیے سماجی ہم آہنگی محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت ہے، جس کے بغیر معاشرہ مضبوط اور پرامن نہیں بن سکتا۔
سماجی ہم آہنگی میں باہمی اعتماد، مشترکہ سماجی اقدار اور شہری یکجہتی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب مختلف گروہ ایک دوسرے کو ’’دشمن‘‘ یا ’’غیر‘‘ تصور کریں، تو مذہبی ہم آہنگی کا تصور کمزور پڑ جاتا ہے۔
ریاست کی غیر جانبداری اور شہریوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ کسی بھی پرامن معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے، اور یہی عوامل سماجی ہم آہنگی کو مضبوط بناتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کے ساتھ امتیاز نہیں برتتے اور انصاف بلا تفریق فراہم کیا جاتا ہے، وہاں مذہبی کشیدگی اور ٹکراؤ کے واقعات واضح طور پر کم ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں- آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، تعلیمی اداروں میں مذہبی جبر سے روکتا ہے، اور اقلیتی برادریوں کے تحفظ کا حکم بھی دیتا ہے- لیکن مختلف تحقیقی رپورٹس بار بار اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ اصل مسئلہ قوانین کی عدم موجودگی نہیں بلکہ ان کے مؤثر نفاذ کی کمی ہے۔ جب قانون عملی سطح پر کمزور ہو، تو معاشرے میں عدم برداشت کو بڑھنے کا موقع مل جاتا ہے، اور یہی صورتحال مذہبی شدت پسندی کا راستہ ہموار کرتی ہے۔
قواعد و ضوابط اور ضابطۂ اخلاق کے باوجود نفرت انگیز تقاریر اور آن لائن مواد مذہبی کشیدگی کا بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
مختلف صوبوں میں کیے گئے کتابوں کے جائزوں میں اقلیتوں کی غلط تصویر کشی، غیر نمایاں کردار اور امتیازی زبان کی نشاندہی کی گئی ہے۔
تحقیقات کے مطابق جب کوئی گروہ معاشی طور پر کمزور یا سماجی طور پر حاشیے پر ہوتا ہے، تو اس کے خلاف امتیاز کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اکثریت و اقلیت کا یہی عدم توازن ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے۔
اقلیتی شناختوں کا سیاست میں استعمال اور نمائندگی کا فقدان بھی اعتماد کے بحران کو جنم دیتا ہے۔
تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ مذہبی ہم آہنگی سماجی ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔
وجوہات:
سماجی ڈھانچہ مذہبی رویوں کو تشکیل دیتا ہے۔
جس معاشرے میں ہمسائے، تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات محفوظ نہ ہوں، وہاں مذہبی اقلیتیں آزادی سے نہیں رہ سکتیں۔
سماجی اعتماد مذہبی احترام کی بنیاد بنتا ہے۔
جس معاشرے میں قانون سب کو برابر سمجھتا ہے، وہاں مذہبی ہم آہنگی خود بخود مضبوط ہوتی ہے۔
عدم برداشت سماجی عمل سے جنم لیتی ہے، اور اسی سماجی عمل سے ختم بھی ہوتی ہے۔
کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے ان چند ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے سماجی ہم آہنگی کو محض ایک سماجی تصور کے طور پر نہیں بلکہ قومی سطح کی باقاعدہ پالیسی کے طور پر اپنایا۔ ان ملکوں کے تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ جب ریاست اپنے اداروں میں ہر شہری کو برابر سمجھنے، یکساں مواقع فراہم کرنے اور امتیاز سے پاک طرزِعمل کو عام کرتی ہے، تو معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی، اعتماد اور امن نمایاں طور پر مضبوط ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، شہری برابری کی ثقافت، اختلاف کو تصادم کے بجائے مکالمے اور تعاون کی طرف لے جاتی ہے، جس کے نتیجے میں مذہبی کشیدگی کم اور قومی یکجہتی میں واضح بہتری آتی ہے۔
یہ تقابلی مشاہدہ پاکستان کے لیے اس لیے اہم ہے کہ ہمارے ہاں قومی ہم آہنگی کی پالیسی اور قانونی فریم ورک موجود ہونے کے باوجود، عملدرآمد کمزور اور ناکافی ہے۔ زمینی حقائق اور تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ یہی نفاذ کا خلا سماجی تقسیم اور مذہبی کشیدگی کو کم ہونے نہیں دیتا، جبکہ تقابلی ممالک میں ہم آہنگی عملی ترجیح اور ریاستی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔
تحقیق اس نقطے پر متفق ہے کہ سماجی ہم آہنگی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس میں ریاست، ادارے، سول سوسائٹی، میڈیا، تعلیمی نظام اور شہری براہ راست شریک ہیں۔ جب ہم باہمی احترام، انصاف، تنوع کو قبولیت، اور برابری کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کریں گے، تب ہی حقیقی مذہبی ہم آہنگی وجود میں آئے گی۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author