مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


قومی اقلیتی کمشن کے قیام کی منظوری اور توقعات

قومی اقلیتی کمشن کے قیام کی منظوری اور توقعات

Author Editor Hum Daise View all posts

خالد شہزاد

اقلیتی قومی کمیشن بل جسکی ضرورت کئی سالوں سے محسوس کی جا رہی تھی آج بروز منگل 2 دسمبر 2025 کو دوبارہ قومی اسمبلی سے کثرت رائے کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔
یہ کمیشن دراصل سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے کی روشنی میں اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکلز 20، 26، 27، اور 36 کے تحت اقلیتی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ایک قانونی طور سے پیش کیا گیا۔ کمیشن کا بنیادی کام اقلیتی شہریوں کے حقوق کی نگرانی، جانچ اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ کمیشن ایک باقاعدہ قانونی ادارہ ہے جو محض ایک مشاورتی کمیٹی کے بجائے، اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات کر سکتا ہے، حکومتی اداروں سے رپورٹ طلب کر سکتا ہے، اور قوانین میں بہتری کے لیے لازمی سفارشات پیش کر سکتا ہے۔قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق 2025 کی تشکیل، یہ کمیشن تقریباً 16 سے 17 اراکین پر مشتمل ہو گا جس میں چیئرمین، اقلیتی برادریوں کے نمائندے، اور سرکاری عہدیدار شامل ہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ردعمل، حکومت اور اتحادی جماعتوں کا ردعمل (حمایت) حکومتی جماعتوں اور ان کے اتحادیوں نے اس بل کو ایک تاریخی کامیابی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا: وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ بل پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے اقلیتی حقوق کے وژن کو عملی شکل دیتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ کمیشن غیر مسلموں کے مفادات کا آئینی تحفظ کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کے اعتراضات کی روشنی میں بل کی شق 35 کو واپس لے لیا تھا تاکہ کسی قسم کے تنازعے سے بچا جا سکے اور یہ ثابت کیا جا سکے کہ حکومت اتفاق رائے سے قانون سازی چاہتی ہے۔ حکومتی ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ یہ قانون سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے کی تعمیل ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل (اعتراضات اور تحفظات)
اپوزیشن کی بڑی جماعتوں، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف (PTI) اور بعض مذہبی جماعتوں نے بل کی شدید مخالفت کی، لیکن ان کے اعتراضات کی نوعیت مختلف تھی: اپوزیشن نے ایوان میں شدید احتجاج کیا اور بل کو سیاسی بنیادوں پر منظور کروانے کا الزام لگایا۔ اپوزیشن کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ کمیشن کو محدود اختیارات دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ صرف ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کے پاس حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کا کوئی حقیقی اختیار نہیں ہے۔ شق 35 کا تنازعہ: اصل اعتراض اس شق پر تھا جسے بعد میں حکومت نے ہٹا لیا۔ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ یہ بل اسلامی اصولوں کے منافی ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن نے بل کی ٹائمنگ پر اعتراض کیا اور کہا کہ اسے صرف عالمی دباؤ اور ملک کی سیاسی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔اقلیتی برادریوں کے نمائندوں نے بل کی منظوری کا بنیادی طور پر خیر مقدم کیا، لیکن اس کے محدود اختیارات پر تحفظات کا اظہار کیا،اکثر اقلیتی رہنماؤں نے اسے درست سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیا کیونکہ یہ ایک مشاورت سے بالاتر قانونی ادارہ قائم کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
اپوزیشن اراکین کے تحفظات: ان کا مطالبہ تھا کہ کمیشن کو عدالتی اور انتظامی اختیارات (Quasi-Judicial Powers) دیے جائیں تاکہ وہ حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں ازخود فیصلہ کر سکے اور حکومت اس کی سفارشات پر عمل درآمد کی پابند ہو۔ ان کے مطابق، موجودہ اختیارات اسے صرف ایک سفارشی ادارے تک محدود رکھتے ہیں، آرٹیکل 27 خاص طور پر تعلیمی اداروں میں اقلیتی کوٹے کی سفارشات کے لیے سب سے زیادہ متعلقہ ہے، جب کے میڈیکل کالجوں یا انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلے کی بات آتی ہے، تو داخلہ ایک طرح سے سرکاری تعلیمی خدمات تک رسائی ہے، جو بالآخر سرکاری ملازمتوں تک لے جاتی ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن آرٹیکل 27 اور 36 کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت پر زور دے گا کہ اگر اقلیتی طلباء کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے (یعنی کوٹے کی عدم موجودگی یا نامناسب مقدار)، تو حکومت مثبت امتیازی سلوک (Affirmative Action) کے تحت کوٹہ مختص کرے تاکہ انہیں قومی زندگی کے دھارے میں لایا جا سکے۔ کیا قومی اقلیتی کمیشن ان آئینی آرٹیکلز کا جائزہ لے کر اور ان کی روشنی میں تحقیقات کر کے حکومت کو وہ قانونی بنیادیں فراہم کرسکے گا جن کی بنیاد پر وفاقی دارالحکومت کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اقلیتی کوٹے کو شامل کیا جا سکتا ہے؟

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author