Author Editor Hum Daise View all posts
فادر خالد رشید عاصی
دنیا کی تاریخ میں ”سیب“ ایک چھوٹا سا پھل ضرور ہے، مگر اس نے بڑے بڑے طوفان برپا کیے ہیں۔ باغِ عدن میں بھی ایک سیب نے ہنگامہ کھڑا کیا تھا، اور لاہور کی عدالت میں بھی ایک سیب نے بحث چھیڑ دی ہے۔ دونوں جگہیں، دونوں فیصلے اور دونوں کہانیاں… حیرت انگیز طور پر ایک ہی نکتے پر آ کر ملتی ہیں: چوری… تو چوری ہی ہوتی ہے۔
بائبل کی روایت کے مطابق خدا نے آدم اور حوا کو جنت میں ہر چیز کی آزادی دی تھی، مگر ایک درخت کے پھل سے منع کیا۔ وہی سیب ان کی آزمائش بنا۔
جیسے ہی حکم ٹوٹا—
نہ کوئی وکیل تھا
نہ اپیل
نہ گواہ
صرف ایک اصول تھا:
حکم ٹوٹا ہے، تو ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
یہ سزا ظاہری طور پر سخت نظر آتی ہے، مگر اصل میں یہ اخلاقی نظم کی بنیاد تھی۔ خدا نے انسان کو یہ سبق دیا کہ خواہ پھل چھوٹا ہو یا بڑا، قانون کی خلاف ورزی غلط ہی رہتی ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں—
ادھر لاہور کی عدالت میں جج صاحب کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوتا ہے جس میں الزام بھی سیب کی چوری کا ہے۔
جج صاحب لمحہ بھر ٹھہرے، مسکرائے، اور سوچا کہ:
کھ دی چوری تے لکھ دی چوری — بات تو ایک ہے۔
قانون میں نہ پھل چھوٹا ہوتا ہے نہ بڑا۔
چوری اگر سیب کی ہو یا سونے کی—
اصل سوال نیت کا اور معاشرتی نظم کا ہے۔
یہ فیصلہ بظاہر معمولی لگتا ہے مگر اس کے اندر سماجی پیغام بہت گہرا ہے۔ قانون کمزور پر نرم اور طاقتور پر سخت نہیں ہو سکتا۔ انصاف کا دروازہ سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے۔
باغِ عدن کا سیب انسان کو اخلاقی ذمہ داری سکھاتا ہے
لاہور کی عدالت کا سیب شہری نظم و قانون کی پاسداری کا پیغام دیتا ہے
دونوں جگہ فیصلہ اصول پر ہوا، جذبات پر نہیں۔
ہمارے ہاں اصل خرابی یہ ہے کہ ہم جرم کی نوعیت سے زیادہ کرنے والے کی حیثیت دیکھتے ہیں۔
ایک غریب چوری کرے تو ”مجرم“
ایک طاقتور کرے تو ”معمولی بات“
یہی فرق معاشروں کو کھوکھلا کرتا ہے۔
باغِ عدن کا سیب یہ سکھاتا ہے کہ خدا کے قانون میں نافرمانی نافرمانی ہے۔
لاہور کا سیب یہ بتاتا ہے کہ دنیا کے قانون میں چوری چوری ہے۔
اور دونوں یہ کہتے ہیں:
معاشرے انصاف سے چلتے ہیں، جذبات اور رعایتوں سے نہیں۔
اصول جب ٹوٹتے ہیں تو معاشرے جنت سے نکل کر جنگل بن جاتے ہیں۔
یہ سیب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ:
اگر ہم نے اخلاقی اور قانونی اصولوں کا احترام نہ کیا تو ایک نہ ایک دن ہمیں بھی ”باغِ عدن“ کی طرح اپنی اپنی جنتوں سے نکلنا پڑے گا


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *