Author HumDaise View all posts
ثناء روف
نائلہ نجی کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر ہے اور سکوٹی پر آفس آتی جاتی ہے اس کا کہنا ہے کہ مجھے آفس آنے جانے میں بہت دقت تھی کیونکہ میرا گھر دور تھا اور جب بس میں جانے کیلئے سڑک پر کھڑا ہونا پڑتا تھا تو لڑکےکبھی گھورتے تھے یا بعض اوقات تنگ کرتے تھے کئی بار رکشہ میں مردوں کے ساتھ بھی بیٹھنا پڑتا تھا اس روز روز کے ذہنی تشدد نے مجھے اس کامتبادل سوچنے کا موقع فراہم کیا اور میں سکوٹی چلانے کی طرف مائل ہوئی ۔
نائلہ کو سفر میں مشکل کا سامنا ہوا تو انہوں نے بایئک چلانے کی مہارت حاصل کی جس سے وہ روز کا سفر طے کرتی ہیں تاکہ انہیں رکشہ بدلنے اور سواری کے انتظار میں کھڑے ہو کر ارد گرد کھڑے لڑکوں کے جملوں کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اس کے ساتھ ایک اور مصیبت بھی جڑی ہے اس کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کا سکوٹی پر باہر نکلنا بہت مشکل ہے کیونکہ انہیں ہر جگہ لوگوں کی عجیب و غریب نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود میں اپنی فیملی کی باقی لڑکیوں خاص کر اپنی بہنوں کو اسے چلانا سیکھنے کی ترغیب دے رہی ہوں زیادہ لڑکیاں سیکھیں گی تو وہ خودمختار بھی ہوں گی اور سڑک پر کھڑے ہونے کی اذیت سے بھی بچ جایئں گی ۔
نائلہ نے روایتی سفر کے طریقہ کار سے توجان چھڑوالی لیکن معاشرے کا رویہ کئی بار اسے پریشان کردیتا ہے سکوٹی پر آنے جانے سے انہیں سہولت تو ہوئی لیکن اب بھی سفر کے دوران اردگرد موجود ڈرایئورز کے جملے اور نظریں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔
سڑکوں پر آٹو اور چنگ چی رکشوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے شہریوں خصوصا خواتین کو انہی میں سفر کرنا پڑتا ہے جہاں مرد حضرات بھی ساتھ ہی بیٹھے ہوتے ہیں ۔لیکن صرف نائلہ نہیں ہیں جنہیں اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ فیصل آباد کی 90 لاکھ سے زائد آبادی میں 38 لاکھ سے زائدخواتین ہیں جن کی اکثریت کو کہیں بھی آنے جانے میں دقت کا سامنا ہے ۔ بسوں کی کمی اور رکشوں کی بھرمار نے خواتین کیلئے سفر کو پریشان کن بنا دیا ہے ان سب مشکلات کے باوجود وہ پرعزم ہیں اور ڈرایئونگ میں مہارت حاصل کررہی ہیں تاکہ خود کو محفوظ اور مضبوط بنا کر اس مسئلے سے نجات حاصل کی جا سکے اور پرسکون ہوکر اپنے تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں کا رخ ممکن ہو
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *