Author Editor Hum Daise View all posts
انیسہ کنول
سیلاب کے دوران متاثرہ علاقوں میں سب سے بڑا مسئلہ نہ صرف پانی کی تباہ کاری ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ انسانی رویے بھی متاثرین کے لئے کربناک ثابت ہوتے ہیں جب سیلابی ریلے دیہاتوں اور قصبوں کو گھیر لیتے ہیں تو سب سے پہلی ضرورت محفوظ مقامات تک رسائی ہوتی ہے اس مقصد کے لئے مقامی کشتی بانوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں کیونکہ وہی واحد ذریعہ ہوتے ہیں جو ڈوبے ہوئے علاقوں میں لوگوں کو اور ان کے مال مویشیوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچا سکتے ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے نازک وقت میں بعض کشتی بان انسانی ہمدردی اور خدمت کے جذبے کو پس پشت ڈال کر مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ متاثرہ لوگوں سے ضرورت سے زیادہ کرایہ طلب کرتے ہیں اور اگر پیسے فوری طور پر نہ دیے جائیں تو انہیں سوار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اس صورتحال میں متاثرین خصوصاً غریب طبقے کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا اور انہیں اپنی زندگیوں کو بچانے کے لیے ہر شرط ماننی پڑتی ہے
ارشد خان جن کا تعلق ترنڈہ محمد پناہ سے اور سیلاب کے دوران سیلابی علاقوں میں مسلسل رپورٹنگ کرتے ہیں وہ اس 2025 کے سیلاب کی صورتحال اور اس میں ڈوبے سیلاب زدگان کے ساتھ رہتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اس بلیک میلنگ کا سب سے زیادہ نشانہ وہ لوگ بنتے ہیں جن کے ساتھ خواتین، بچے اور مال مویشی ہوتے ہیں پانی میں پھنسے یہ افراد اپنی مجبوری کی بنا پر کشتی بانوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں کشتی بان ان سے فی کس 5000 سے 10000 روپے وصول کر کے انہیں محفوظ مقام تک پہنچا رہے ہیں اور جن کے ساتھ مال مویشی ہیں ان سے بھی 50 پرسنٹ ہر ڈیل کر کے لے جا رہے ہیں سیلاب زدگان اپنی جان بچانے کی خاطر قرض لے کر، زیورات بیچ کر یا سامان گروی رکھ کر کرایہ ادا کرنے پر مجبور ہیں بعض اوقات یہ شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ ایسے متاثرین جو کہ کم پیسے دیتے ہیں ان سے پیسے لینے کے باوجود کشتی بان انہیں مکمل راستہ فراہم نہیں کرتے بلکہ آدھے رستے چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے مزید مشکلات جنم لیتی ہیں اس عمل سے نہ صرف انسانی المیہ بڑھتا ہے بلکہ سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت اور مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے
یہ رویہ مقامی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کی کمزوری کی بھی عکاسی کرتا ہے اگر حکومت اور ریسکیو ادارے فوری طور پر اپنی کشتیوں اور امدادی ذرائع کو بروئے کار لائیں تو متاثرین کو نجی کشتی بانوں پر انحصار نہ کرنا پڑے لیکن اکثر وسائل کی کمی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے متاثرین مجبوراً انہی کشتی بانوں کے پاس جاتے ہیں جو حالات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس غیر انسانی عمل کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سیلابی علاقوں میں پہلے سے کشتیوں اور ریسکیو ٹیموں کا بندوبست کرے، کرایوں کے حوالے سے سخت پالیسی بنائے اور کسی بھی طرح کی بلیک میلنگ کے خلاف فوری کارروائی کرے
(ایڈووکیٹ ہائی کورٹ عاصم بخاری )کا سیلابی مسائل کے حل کے لیے کہتے ہیں کہ اس ساری صورتحال نے یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ قدرتی آفات صرف فطری تباہ کاری نہیں ہوتیں بلکہ انسانی رویے بھی متاثرین کے دکھ درد کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں کشتی بانوں کی یہ بلیک میلنگ ایک ایسا سماجی و اخلاقی بحران ہے جو سیلاب زدگان کی مشکلات کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو ہر آنے والے سیلاب میں یہ مسئلہ زیادہ شدت سے سامنے آئے گا اور انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ انسانی قدریں بھی ڈوبتی چلی جائیں گی
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *