Author Editor Hum Daise View all posts
سرور سکندر
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا ہے کہ اب ہم ایک صفحے پر ہیں کوئی بھی اگر کسی ایک ملک پر میلی آنکھ ڈالے گا تو دونوں مل کر اس کی دونوں آنکھیں نکال کر قینچے کھیلیں گے اب بات بہت آگے نکل چکی ہے یقینا یہ شہباز حکومت کی ایک اسٹریٹجک کامیابی ہے چاہے ہم لاکھ ان کے خلاف میمز بنا دیں یہ ضروری تھا کہ اگر خادم حرمین کے خلاف اسرائیل یا قطر جیسی شر انگیزی کرے گا تو پاکستان کی طرف سے ابدالی اور فتح جیسے بیلسٹک میزائل اسرائیل کا رخ کریں گے
اب سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو پاکستان جیسے قرضوں میں ڈوبے ملک کی حمایت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو اس کی وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ اسرائیل کو اب پہلے سے بھی زیادہ چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی ملک پر بلااشتعال جارحیت کر سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے پچھلے ہفتے قطر پر کیا، جہاں انہوں نے دوحہ میں حماس کی قیادت کو جو غزہ میں جنگ بندی کے مشن پر تھے نشانہ بنایا یوں قطر اپنے دفاعی نظام کے باوجود کچھ نہ کر سکا
اگر ایران کی مثال لی جائے تو امریکہ کے ساتھ مل کر جو کچھ بھی کیا گیا ایران نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا یوں انہیں لگا کہ ایران سے چھیڑ کر اپنی ہی سبکی کروائی اور اگر بات انسانیت کی کی جائے تو ان حملوں سے انسانیت خود شرما جاتی ہے دوسری جانب سعودی عرب کے اوپر سے یمن پر بھی حملے ہو رہے ہیں جن کا جواب بھی یقینا میزائل کی صورت میں اسرائیل کو مل رہا ہے
ان تمام حملوں کو دیکھ کر خود سعودی عرب بھی جو کہ امریکہ کا قریبی دوست ہے سہم گیا اور اس نے شہباز شریف کو دعوت دے کر ریاض بلا لیا سوچا کہ ایٹمی ملک ہے ہاتھ ملا کر رکھا جائے جب شہباز شریف کا طیارہ ریاض کی حدود میں پہنچا تو سعودی ایف 15 طیاروں نے اڑان بھر کر ان کا استقبال کیا بعدازاں ولی عہد نے شاہی محل بلا کر یہ معاہدہ کیا کہ اب ہم ایک ہیں اور کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا یعنی اگر کسی نے جنگ مسلط کی تو دونوں مل کر اس کا جواب دیں گے
اس معاہدے کا سب سے بڑا اثر اسرائیل سے زیادہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت پر پڑا ہے جس نے کہا ہے کہ ہمیں اس معاہدے کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا اور ہم معاملے کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں یقینا یہ ایک بہت اہم معاہدہ ہے جس کی ضرورت برسوں سے محسوس کی جا رہی تھی یہ صرف دو ملکوں کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے 57 ممالک کے درمیان ہونا چاہیے تھا
اگر ایسا ہوتا تو نہ صرف اسرائیل بلکہ شیطان بزرگ امریکہ بھی خود میں الجھا رہتا بلکہ قطر پر ہونے والے حملے کے فوراً بعد دوحہ میں منعقدہ او آئی سی کانفرنس میں یہ فیصلہ ہونا چاہیے تھا کہ اگر کسی ایک اسلامی ملک پر حملہ ہوا تو اسے پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائے گا لیکن اس کے برعکس او آئی سی میٹنگ میں امریکہ کی تعریف کی جا رہی تھی جس پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید ہو رہی ہے
لیکن ایسا کب ہوگا؟ پوری ملت منتظر ہے ایسا کہنے والے مسلم رہنماؤں کو نہ صرف راستے سے ہٹایا گیا بلکہ بعض کو تختۂ دار تک پہنچا دیا گیا ذوالفقار علی بھٹو شاہ فیصل کرنل معمر قذافی سمیت کئی رہنماؤں کو اپنے ہی لوگوں کے ذریعے نہ صرف اقتدار سے ہٹایا گیا بلکہ سزائے موت تک دلوائی گئی اگر اب بھی کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے کا خدشہ ہے
لیکن غزہ کی حالت دیکھ کر، وہاں بسنے والے لاکھوں مظلوموں کی کسمپرسی دیکھ کر یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش مسلم ممالک کی بھی نیٹو جیسی کوئی متحد اور مضبوط تنظیم ہوتی اور اس طرح کے مظالم کا سدباب ہو سکتا


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *