Author Hum Daise View all posts
سمیر اجمل
پاکستان میں سیلاب کی بد ترین تباہ کاریاں جاری ہیں‘ شمالی علاقہ جات سے شروع ہونا والا آفات کا یہ سلسلہ پنجاب سے ہوتا ہوا اب سند ھ کی طرف رواں دواں ہے‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ کا بد ترین سیلاب ہے جو اپنے رستے میں آنے والی ہر شے کو تہہ و ناس کرتا ہوا جا رہا ہے اور فی الحال طور پر اس بات کا تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ اس سیلاب سے قدر جانی و مالی نقصان ہوا ہے تاہم پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق تاحال پنجاب میں نقصانات کا جو تخمینہ لگایا گیاہے اس کے مطابق 45لاکھ 70ہزا ر لوگ متا ثر ہوئے ہیں‘ سیلاب سے ہونے والی اموات کی تعداد 119ریکارڈ کی گئی ہے‘ 4ہزار 7سو موضع جات کا زرعی رقبہ متاثر ہوا ہے۔ ریلیف کمشنر پنجاب کے مطابق سیلاب کے دوران 26لاکھ 14ہزار افراد کو مخفوظ مقامات پر منتقل کیا گیاہے۔مویشیوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے 367وٹرنری کیمپس قائم کئے گئے جبکہ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں کے دوران 20لاکھ 90ہزار جانوروں کو محفوظ مقامات پر متنقل کیا گیا ہے۔یہ وہ تفصیلات ہیں کہ جو کہ پہلے بھی منظر عام پر آچکی ہیں برسیل تذکرہ ان کا بیان اس لئے کئے گیا ہے تا کہ بتایا جا سکے کہ سیلاب کے اتر جانے کے بعد جو مسائل شروع ہوچکے ہیں اور جن صعوبتوں کا سیلاب متاثرین کو سامناہے اور اس سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کا ذکر ابھی تک سرکاری رپورٹس میں نہیں آیا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ حتمی رپورٹ راستے کلیئر ہونے اور پانی اترنے پر تیار کی جائے گی مگر ان مسائل کاتذکرہ حتمی رپورٹ سے قبل اس لئے ضروری ہے تاکہ حکومت اور انتظامیہ کو اس بات کا قبل ازوقت ادراک ہو سکے۔میرا تعلق ملتان سے ہے اور ملتان کی تحصیل جلالپور پیر والہ اور شجاعباد اس وقت سیلاب سے شدید متاثر ہے اگر اس علاقے کو ہی ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے سیلاب کے بعد پیش آنے والی مصیبتوں کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آجائے گا کہ مسائل کس قد ر گھمبیر ہیں۔ جلالپور کا تقریبا تما م زرعی رقبہ زیر آب آچکاہے اور اب شہر کو بچانے کے لئے مختلف مقامات پر بندوں میں شگاف ڈالنے کر پانی کا رخ موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے‘انتظامیہ کی کوششوں سے سیلاب کا رخ تو موڑ دیا گیاہے مگر جلالپور میں 9روز سے جمع سیلابی پانی کو تاحال نہیں نکالا جا سکا جس کے باعث تما م زمین دلدلی ہو چکی ہے‘ کچے مکان گھرندوں میں تبدیل ہو کر ملیا میٹ ہوچکے ہیں جبکہ پختہ مکان اور حویلیاں بھی زمین میں دھنس چکی ہیں‘ سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر میں سیلابی پانی میں بہہ جانے کی وجہ سے علاقے کا نقشہ بدل چکاہے‘ جن لوگوں نے اپنے گھروں کو واپس جانے کی کوشش کی ہے وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب نے اس قدر تباہی کی ہے کہ ان کے لئے بھی اپنے گھر اور علاقے کو پہچنا نا مشکل ہوگیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی علاقہ مکینوں کا کہنا کہ حکومت کی طرف سے مالی مویشی بچانے کا جو دعوی کیا جا رہا ہے اس کے اعداد و شمار درست نہیں کیونکہ سیلاب کی شدت کا اندازہ نہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے مال مویشی محفوظ مقام پر منتقل نہیں کئے تھے اور جب سیلا ب آیا تو اتنی مہلت نہیں مل سکی کہ منتقل کیا جا سکے جس کی وجہ سے مال مویشی اور دیگر اسباب سیلاب کے ساتھ بہہ گیا ہے اب ان کے لئے اپنے گھروں میں واپس جانا دوبارہ آبادکاری کے مترادف ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ دلدلی زمین پر بڑے عرصہ تک کاشتکاری نہیں ہوسکے گی جس کی وجہ سے جو مویشی بچے ہیں ان کے لئے چارہ دستیاب نہیں ہوگا ہے۔ خشتت بھٹہ جات اور دیگر کاروباری اسباب پانی میں بہہ جانے کے باعث روز گار کے ذرائع بھی ختم ہوچکے ہیں ان حالات میں معمولات زندگی کو دوبارہ سے شروع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا اس لئے حکومت ان کو تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلاب متاثرہ علاقوں میں شہریوں کی بحالی کے لئے جامع پلان تشکیل دیا چاہئے جس میں ان کے لئے روز گار کے مواقع سمیت گھروں کی تعمیر و مرمت اور بحالی کا منصوبہ بھی شامل ہو


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *