مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


ہجرت ، جدوجہداور خدمتِ خلق کی ایک روشن داستان

ہجرت ، جدوجہداور خدمتِ خلق کی ایک روشن داستان

  Author Editor Hum Daise View all posts

انیسہ کنول
کچھ کہانیاں صرف ذاتی کامیابی کی نہیں ہوتیں بلکہ وہ پورے معاشرے کے لیے امید، حوصلے اور انسانیت کا پیغام بن جاتی ہیں۔ احمد پور شرقیہ کے محلہ سرور شاہ سے تعلق رکھنے والے عامر شہزاد کی زندگی بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے، جو غربت کی تنگ گلیوں سے شروع ہو کر سماجی خدمت اور فلاحی قیادت تک پہنچتی ہے۔
عامر شہزاد ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں وسائل محدود مگر محنت بے مثال تھی۔ ان کے والد فرنیچر بنانے کا کام کرتے تھے، ایک سادہ مگر باعزت پیشہ، جس سے وہ سات بچوں کی پرورش کرتے رہے۔ غربت کے باوجود عزتِ نفس، محنت اور صبر ان کے گھر کا سرمایہ تھے۔ عامر شہزاد آج بھی فخر سے کہتے ہیں کہ انہیں اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں کہ وہ ایک کارپینٹر کے بیٹے ہیں، بلکہ یہی پہچان ان کی اصل طاقت ہے۔
تعلیم کو انہوں نے ہمیشہ ترقی کی کنجی سمجھا۔ 1996 میں صادق آباد کے گورنمنٹ اسکول سے میٹرک کیا اور 1998 میں بی کام مکمل کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے شوق نے انہیں پنجاب یونیورسٹی لاہور پہنچایا، جہاں سے انہوں نے بی کام ، ایم بی اے اور سی اے انٹرمیڈیٹ کیا۔ انہوں نے سی اے کا امتحان بھی پاس کیا، مگر گھریلو ذمہ داریوں اور مالی حالات کے باعث چار سالہ آرٹیکل شپ مکمل نہ کر سکے۔ یہ وہ موڑ تھا جہاں خوابوں اور حقیقت کے درمیان مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔
عملی زندگی کا آغاز لاہور میں دارِ ارقم اسکول سے بطور اکاؤنٹنٹ ہوا۔ تنخواہ معمولی تھی، مگر تجربہ قیمتی تھا۔ بعدازاں LG Electronics میں سینئر اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا، مگر آمدن خاندان کی ضروریات کے لیے ناکافی ثابت ہوئی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب انہوں نے بیرونِ ملک جانے کا فیصلہ کیا۔
والد نے اپنی جمع پونجی بیچ کر بڑی مشکل سے دبئی کا ویزہ دلایا۔ جب عامر شہزاد پہلی بار دبئی پہنچے تو ان کے پاس صرف 272 درہم تھے۔ نہ جان پہچان، نہ سہارا—بس والدین کی دعائیں اور خود پر یقین۔ اعلیٰ تعلیم کے باوجود ابتدا میں کوئی معیاری نوکری نہ مل سکی، مگر وہ مایوسی کے بجائے جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔
2002 میں انہیں دو ملازمتوں کی پیشکش ہوئی—ایک اکاؤنٹنٹ کی اور دوسری سیلز ڈیپارٹمنٹ میں۔ انہوں نے 1750 درہم کی تنخواہ پر سیلز کا شعبہ چُنا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ پبلک ڈیلنگ انسان کو خود کو پہچاننے اور آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے۔ شارجہ میں پہلی پوسٹنگ ہوئی، جہاں بغیر گاڑی اور سہولتوں کے ڈور ٹو ڈور اور آفس ٹو آفس جانا پڑتا تھا۔ یہی محنت، مستقل مزاجی اور لوگوں سے جڑنے کا ہنر ان کی کامیابی کی بنیاد بنا۔
عامر شہزاد کی زندگی کا سب سے روشن پہلو ان کی سماجی خدمت ہے۔ وہ اس جذبے کی بنیاد اپنی والدہ کی تربیت کو قرار دیتے ہیں، جو غربت کے باوجود ہمسایوں کو سالن ضرور دیا کرتی تھیں۔ یہی چھوٹا سا عمل ان کے دل میں رچ بس گیا اور وقت کے ساتھ یہ عادت ایک مشن میں بدل گئی۔
انہوں نے سب سے پہلے اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں میں خوشیاں بانٹیں۔ آج وہ اپنی بہنوں اور بہنوئیوں کو عمرہ کروا چکے ہیں۔ رمضان ہو یا سیلاب، کوئی قدرتی آفت ہو یا کسی فرد کی ذاتی مصیبت—ان کے دروازے ہمیشہ ضرورت مندوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ لنگر خانوں کا قیام، خاموش مدد اور مستقل فلاحی سرگرمیاں ان کی پہچان بن چکی ہیں۔
کچھ لوگ ماضی کی غربت کو طعنہ بناتے ہیں، مگر عامر شہزاد کے نزدیک یہ ان کا اعزاز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آج وہ اس مقام پر ہیں تو اس میں والدین کی محنت، دعاؤں اور تربیت کا بنیادی کردار ہے۔ ان کے نزدیک دولت کا اصل مقصد بانٹنا ہے، نہ کہ جمع کرنا۔آج عامر شہزاد احمد پور شرقیہ کے ایک نمایاں سماجی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کی رہنمائی، مستحقین کی مدد اور شہر کی فلاح و بہبود ان کا مشن ہے۔ مستقبل میں بھی وہ کئی سماجی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، جن کا مقصد ایک بہتر، ہمدرد اور باوقار معاشرہ تشکیل دینا ہے۔
عامر شہزاد کی کہانی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ زیرو سے ہیرو تک کا سفر صرف معاشی کامیابی کا نام نہیں بلکہ انسانیت، کردار اور خدمتِ خلق کا سفر ہے—اور یہی سفر کسی بھی معاشرے کو اصل معنوں میں مضبوط بناتا ہے

 

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author