Maecenas mauris elementum, est morbi interdum cursus at elite imperdiet libero. Proin odios dapibus integer an nulla augue pharetra cursus.
گل فام کاکڑ ایڈووکیٹ نے اجلاس کا آغاز کیا اور حاضرین کی سماعتیں گلابی لہجوں، دل قومی محبتوں اور اذہان فکری گفتگو سے فیض یاب ہونے لگے۔ پروفیسر نور الامین کی کتاب ”پختون دانش“ کی رونمائی ہوئی۔ ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کے تعارفی کلمات : ”دو سو صفحات پر مبنی اس کتاب کا پہلا حصہ پختون کلچر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ اور دوسرا اقوال اور حکایات پر مشتمل ہے۔
پشتو کے عظیم شاعر غنی خان پر ڈاکٹر عرفان اللہ خان نے اپنا مقالہ ’پشتو زبان، ادب اور غنی خان‘ پیش کیا۔ ’‘ رگ وید میں پشتو کے کئی الفاظ ہیں جب کہ گنگا کا ذکر ایک بار آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پشتو نے سنسکرت کی پرورش کی۔
آٹھویں صدی میں امیر کروڑ نے کہا تھا کہ :
میں شعر شجیع ہوں
میرے جیسا کوئی نہیں
ہند، سندھ، کابل، تخار اور زابل میں کوئی نہیں
یہ اس زمانے کا مزاج تھا۔ پشتو کے غزل گو شاعر اکبر زمیندار کا شعر ہے :
اگر مجھے حکم دیا جائے کہ میں خادم ہو جاؤں
میں تمہارے چولہے کے سرخ انگار سر پر لے جانے کو تیار ہوں
یہ الگ مزاج کی شاعری ہے۔ رحمان بابا اور خوش حال خان خٹک صوفی شاعر تھے، یہ سلسلہ اور ہم پہنچتے ہیں بیسویں صدی میں غنی خان تک ؛ جلال اور جمال کا شاعر۔ وہ مصور، مجسمہ ساز اور سنگ تراش بھی تھے۔ انہوں نے انگریزی میں ”دی پٹھان“ اور اردو میں ”خاں صاحب“ کے نام سے کتاب لکھی۔ ان کی کلیات بھی شائع ہوئی۔ بیسویں صدی تغیرات اور تبدیلیوں کی صدی، دنیا سکڑنے کی طرف جا رہی تھی، وقت کی ضرورت تھی کہ روایت اور جدت کو آہنگ کیا جائے، یہ کردار انہوں نے بہ حسن و خوبی ادا کیا۔
ان کی شاعری کا ’تصور انساں‘ :
کعبہ ابراہیم علیہ السلام نے بنایا
مجھے اللہ نے بنایا
تو آپ بتائیں مولوی صاحب
کون بڑا ہے کون چھوٹا ہے
فلسفہ حیات و عشق:
دیوانوں کے بابا مجھ کو بتا کیا سجدہ گزاری بہتر ہے
یا کیف یہ مستی اچھی ہے
خود حسن میں ڈھل جانا بہتر ہے
یا حسن پرستی اچھی ہے
کیا خوب کہتے ہیں :
نہ جانے کون سی صورت نئے گل کی ابھارے گا
ہزاروں سیکڑوں راتیں اکٹھی کر کے تقویٰ کی
یہاں پر عشق کا ایک لمحہ رنگیں بناتا ہے
غنی خاں جب ورد کرتا ہے میرے دلبر میرے دلبر
سیدہ بشریٰ بیگم پر ماہم خٹک نے گفتگو کی۔ ”سیدہ بشریٰ بیگم 1922 میں میاں آزاد گل کاکاخیل کے گھر پیدا ہوئیں جو اپنے عہد کے صحافی، ادیب اور دانش ور تھے۔ 1930 جس وقت باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک زوروں پر تھی اس وقت میاں آزاد گل کاکاخیل نے پشتون رسالے کا اجراء کیا۔ اس میں سیدہ بشریٰ بیگم نے س ب ب کے نام سے مضمون لکھا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام“ زیرے ” ( خوش خبری) کے نام سے آیا۔ یہ پشتو کی پہلی شاعرہ ہیں جن کا کلام شائع ہوا۔ نویں دسویں جماعت کے نصاب میں ان کی غزلیں شامل ہیں۔ ان کے انقلابی کلام کا مصرعہ زبان زد عام ہے :
وہ دوپٹے جن سے پرچم نہیں بنتا
وہ دوپٹے مجھے نہیں چاہئیں
قیصر آفریدی نے اپنا مقالہ ”امیر حمزہ شنواری کی شاعری۔ فکری اور فنی اساس“ پڑھا: ”حمزہ شنواری جنہوں نے پشتو سخن میں بابائے غزل کا لقب پایا۔ شاہ لطیف، خوشحال، رحمان اور اقبال کی طرح حمزہ شنواری کے ہاں ایک آئیڈیل کردار ’پختون‘ کے نام سے متعارف ہوا۔ متذکرہ عظیم شعراء میں نکتہ عظمت کی قدر مشترک یہ ہے کہ ان کی شاعری اپنے عظیم شعری کردار کا آئینہ ہے۔ ضروری نہیں کہ اس سے نظریاتی طور پر ہر صاحب الرائے متفق ہو لیکن شعری ریاضت میں اس مرحلے تک پہنچنا کہ وہ اپنی سوچ اور فکر کے تم اجزاء کو ایک متحد کل میں سموئے مسلسل فکری مشقت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ حمزہ صاحب کے پختون کردار کے خدو خال ان کے اپنے ایک شعر میں یوں سمٹ کر آتے ہیں :
میرے پختون عشق اس کے سامنے تم جھک کر کیوں گئے؟
تیرے جواں پگڑیوں کی وہ سرفرازی کہاں چلی گئی؟
اجمل خٹک کے بارے میں نورالامین یوسف زئی نے کہا کہ۔ ”وہ کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے۔ 1942 سے ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا اس وقت وہ آٹھویں جماعت میں تھے ؛ان کو انگریز نے قومی سیاست اور باچا خان سے وابستگی کی وجہ سے اسکول سے نکالا اور پھر ایم اے تک انہوں نے پرائیویٹ تعلیم حاصل کی۔ 1964 سے 1977 تک وہ مختلف جیلوں میں رہے، جس پر انہوں نے آپ بیتی ’کیا میں پاگل تھا؟‘ لکھی۔
صحافت میں آئے تو بڑے بڑے صحافیوں کے استاد ہوئے۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ’کشکول‘ ہے۔
1938 چودہ سال کی عمر میں کو وہ ایک مشاعرے میں شریک ہوئے۔ وہ کہتے تھے کہ میرے خون میں پشتو ولی ہے، میرے سینے میں اسلام ہے اور میرے سر میں مارکسزم ہے۔ 1958 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’صدائے غیرت‘ منظر عام پر آیا۔ یہ ایسا سیاسی صحیفہ تھا کہ جب پتا چلا کہ حکومت اس کو قبضے میں لے رہی ہے تو اس وقت کے انقلابیوں نے ان نظموں کو ازبر کر لیا۔ یہ کتابیں اجمل خٹک کی شناخت ہیں ”۔
ڈاکٹر اباسین یوسف زئی نے زیتون بانو پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”زیتون بانو افسانہ نگار، شاعر، اداکار، صداکار اور ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر رہیں۔ ان کی پشتو اور اردو کتابوں کی تعداد پندرہ ہے جس پر انہیں صدر پاکستان سے ایوارڈ ملا۔ خاطر غزنوی رقم طراز ہیں ’زیتون بانو علامت نگار نہیں اس لیے کہ وہ پشتون ہے، علامت نگاری منافقت کی پیداوار ہے اور پشتون منافقت نہیں جانتا۔“ وہ خود لکھتی ہیں ”میرے افسانوں میں آپ کو خوشبو بہت کم محسوس ہو گی کیوں کہ کچے پکے رستے ناسور قلم کے ذریعے پھوڑتی ہوں جس میں بدبو ہی ہوا کرتی ہے۔“ انہیں سرحد کی عصمت چغتائی کہا گیا۔
’عزت کی دستاریں مردوں کے سروں پر سج گئی ہیں، بانو کے حصے میں خالی ایک دوپٹہ آیا‘ ۔
’میرا چھوٹا بیٹا اپنی مونچھوں کی نوک پلک درست کر رہا ہے، میرے سینے میں ڈر کے مارے کھلبلی مچی ہوئی ہے‘ ۔ ۔ ۔ ۔
4 comments
4 Comments
Linda Gareth
March 6, 2015, 3:02 pmMaecenas dolor, sot donec ipsum diam, pretium gravida nulla maecenas mollis dapibus risus. Nullam tindun pulvinar at interdum eget, suscipit eget felis. Pellentesque est faucibus tincidunt.cubilla gravida.
REPLYAlex Holden
March 6, 2015, 3:05 pmDonec ipsum diam, pretium maecenas mollis dapibus risus. Nullam tindun pulvinar at interdum eget, suscipit eget felis. Pellentesque est faucibus tincidunt risus id interdum primis orci cubilla gravida.
REPLYAnna Shubina@Alex Holden
March 6, 2015, 3:06 pmMaecenas dolor, sot donec ipsum diam, pretium gravida nulla maecenas mollis dapibus risus. Nullam tindun pulvinar at interdum eget, suscipit eget felis. Pellentesque est faucibus tincidunt.cubilla gravida.
REPLYHeather Dale@Alex Holden
March 6, 2015, 3:06 pmDonec ipsum diam, pretium maecenas mollis dapibus risus. Nullam tindun pulvinar at interdum eget, suscipit eget felis. Pellentesque est faucibus tincidunt risus id interdum primis orci cubilla gravida.
REPLY