طارق اسماعیل Author HumDaise View all posts
طارق اسماعیل
پھر اپ کو 1989میں لئے چلتے ہیں۔ فضائی شہادت کے چند ہی ماہ بعد، 1919میں قائم ہونے والا سکول لاڑ لڑکپن سے جوانی میں داخل ہونے کے ٹرننگ پوائنٹ پر ہے ‘جی ہاں۔۔۔ہائی سکول لاڑ ہائیرسیکنڈری کے درجے پر فائز ہواچاہتاہے۔ایک چھوٹا مگر وسیع سبزہ زار گراونڈ ہے جس میں “لب پہ اتی ہے دعا بن کے تمنا میری”سے سکول کا اغاز ہوتاہے۔لاڑ سکول اس وقت جناب غوری صاحب،جناب ظہور احمد زاہد ،جناب خادم حسین ،جناب برکت علی ندیم اور جناب یوحنا گوہر صاحبان کی قابلیت سے مہکتاہے۔جام اللہ رکھاناصرصاحب اسمبلی کے بعد طلبا میں خود اعتمادی لانے کے لئے خطاب کرتے ہیں۔چوہدری صدیق صاحب صبح سویرے مونچھوں کو تاو دے کر اپنی دھاک بٹھاتے ہیں۔اسمبلی کےچند لمحے بعد ہی جناب ملک خدابخش صاحب ایف ایکس گاڑی پر سکول میں داخل ہوتے ہی ہیں کہ پی ای ٹی عبدالرحمان صاحب کی چستی کا پھرتیلا مگر ڈراونا انداز 1460سے زائد طلبا کو چند ہی لمحوں میں خاموش کرادیتاہے۔خاموشی ایسی جیسے سب کو چپ لگی ہو اور یہ سکول نہیں بلکہ سویا ہوا محل ہے۔پی ای ٹی عبدالرحمان ڈسپلن برقرار رکھنے کے لئے بسا اوقات ڈنڈا بھی خوب گھماتے ہیں۔بوقت ضرورت ڈنڈا ایسا چلتا کہ فلم اچھو 302میں سلطان راہی نے کیا چلایا ہوگا ۔اسمبلی میں حافظ اللہ رکھا تلاوت کلام پاک کرتے ہیں تو حامد بن خورشید سعیدی حضور سرور کونین رحمت اللعالمین کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔یہ بڑا پوتر دور ہے۔حامد نے جونعت پڑھی اس کے بعد ہمیں یوسف میمن صاحب بھی اسقدر متاثر نہ کرسکے جو لطف حامد کی نعت سننے سے اتا۔حفیظ جالندھری کا فارسی میں لکھا ہمارا قومی ترانہ ابھی ختم ہوہی رہا ہوتاکہ اورنگ زیب مڑل کاپاکستان زندہ باد کا نعرہ جنوری کی یخ بستہ سویر گرماکررکھ دیتا ہے۔نعرے سے لاڑ بستی کے گھروں میں سوئے بچوں کی چھرکی نکل جاتی۔کئی خواتین تو شکایات لے کے سکول اجاتی ہیں کہ صبح کے نعرے سے ہمارے بچے ڈر جاتے ہیں۔لاڑ سکول کے مڈل پورشن میں اس وقت ہر کلاس تین ،تین سیکشن پر مشتمل ہے۔ان میں ایک کلاس ہفتم نشتر بھی ہے۔یہ کلاس کیا ہے , پاگلوں کا ایک مجموعہ ہے۔جس میں ایک سے بڑھ کر ایک پاگل موجود ہے۔جی ہاں۔۔۔۔۔ یہ پاگلوں ہی کی کلاس ہے جس کے اگے چل کر ایک ہی کلاس سے 8پاگل مڈل سٹینڈرڈکے مقابلہ کے امتحان میں سکالر شپ کے ہمکنار ہوئے۔یادش بخیر تو میٹرک 1992میں بھی یہی کلاس میٹرک میں بھی 100فیصد رزلٹ دیتی ہے۔1919میں قائم ہونے والے لاڑ سکول کا یہ منفرد ریکارڈ اور اعزاز بھی پاگلوں کی ہی کلاس کے پاس ہے۔جناب ظہور احمد زاہد صاحب کی محنت کا یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولا ہے۔ظہور احمد صاحب اگر ایم ایڈ کے لئے پنجاب یونیورسٹی لاہور نہ جاتے تو اس درویش کا دعوی ہے کہ یہ کلاس بورڈ میں بھی پوزیشن لیتی۔اتنا جو کچھ بھی ہوا یہ بھی ہمارے شفیق استاد جناب ظہور احمد زاہد صاحب کی کمال محنت اور جائز بے وفائی کاافٹرشاکس ہی ہے۔ہفتم نشتر کا ایک مانیٹر ہے جو ظالم اور اذیت پسند ہے۔بظاہر کمزور طلبا کے نام لکھ کر انہیں “بلاامتیاز” پٹواکر اپنے دل کی تشفی مٹاتاہے،اس کی تشنگی رہ جائےتو دن بھر بلیک بورڈ پر نام لکھتارہتاہے۔پٹوانے کے باوجود بھی اس کی تختگی جوں کی توں رہتی ہے۔پکا فیروز پوری ہے۔تب سے ہمارا فیروز پورسےایسا یقین اٹھا ہے کہ فیروزپوری تب سے ہمیں بے وفا،بےدرد،ظالم اور بےحس نظر اتے ہیں۔مگر دھوکے بازنہیں۔ظالم مانیٹر مجھ جیسے پاگلوں کو شرارتوں کی وجہ سے پٹواکر تسکین پاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود دل سے ایک دوسرے کا احترام ہے۔پڑھائی میں خوب مقابلہ جاری ہے لیکن مجال ہے کبھی کسی کے دل میں کینہ،بغض،حسد یا پھر ،رتی بھر رقابت پیداہوئی ہو۔۔۔رقابتوں سے ناواقف یہ پاگل رفاقتوں کے امین ہیں۔ہمدردی کے جذبے سے سرشار ایسے کہ شبیر مغل کے والد محترم کا انتقال ہوتا ہے تو تقریبا”بیشتر کلاس روتی ہے۔اوائل عمری میں سایہ اٹھ جانے پر شبیر کو پرسا دیتی ہے۔یہ بہت حساس کلاس ہے۔یاسر اراپلی کا ہاتھ ابلتے تیل میں جلتا ہے تو یاسر کے درد کی ٹیسیں پوری کلاس محسوس کرتی ہے۔
اب اپ ہی بتائیں کیاسمجھدار اور دانا کسی اور کا درد محسوس کرتے ہیں۔۔؟۔۔۔نہیں ناں۔!
شاید ایسااحساس صرف پاگل ہی کرسکتے ہیں۔
نذیراحمد،امتیاز اشرف محسن،یوسف ،رفیق،اکبرولد محمد رفیق،سجاد جگا،ملک فاروق،شبیر مغل،اللہ بچایا،جندوڈہ،شہادت علی,عمر علی،امتیاز بلہیم،ملک سلیم ولد ملک امیر بخش اراپلی ،میاں ایاز،اعجاز،شاہد نواز،اسماعیل (ڈبل)اکرم ڈبل،حافظ شبیر،اسلم (ڈبل)،ریاض( ٹرپل)،اصف،۔ زبیر احمد،ممتاز ڈوگرا،غلام حسین،رشید رول نمبر 37(ساتت تتری)منیر،سوہنے خان،نفیس احمد نواں شہر،مغیث،اکبر نواں شہر،ارشد،اصغراور یہ خاکسار بھی شامل ہے۔ اس دوران جلہ ارائیں سے اڑ کر ایک بٹیرا بھی پاگلوں کی اس کلاس میں شامل ہواہے۔اور اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے ۔شبیر جلہ ارائیں سے اکر ہمارا ساتھی بن گیاہے۔جی ۔۔یہ وہی شبیرچوہدری ہیں جن کی وجہ سے ہم اج “ری یونین”ہیں۔زبیر جلہ ارائیں سےاڑکر انے والے بٹیرے سے بہت لطف اٹھاتاہے۔سکول انتظامیہ کے فیصلہ کی بھینٹ چڑھنے والا جناح سیکشن تحلیل ہوا تو ملک ظفر اقبال،فرحان قادر جمے شاہ،ظفر عباس لک ولد محمد بخش لک،حامد بن خورشید،حاجی فیاض حسین شاہد سمیت کئی سمجھدار اور برینڈڈ بچے ایسے شامل ہوئے جیسے مرتبان میں پہلے سے موجود ام کے اچار تیل اور مصالے میں چنے،گاجراور پیاز شامل کرلئے جاتے ہیں۔پاگلوں کی کلاس اب غذائیت سے بھر پور مکس اچار ہے۔کلاس روم بھی تبدیل ہوچکاہے۔ڈیسک فیلو اور گروپ بھی معمولی تبدیل ہوئے ہیں۔لیکن ، رفیق اور اکبر اب بھی ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔ہمیشہ سفیدکپڑوں میں ملبوس نیاز صاحب معاشرتی علوم پڑھاتے ہیں۔ایک پاگل کلاس میں نیاز صاحب کے سفید کپڑوں پر ڈالر 717اور ڈالر777پین کی سیاہی ڈال ڈال کر شرارتیں کرتا اور کپڑوں کو سیاہی الود کردیتا۔مجال ہے کسی نے کبھی شکایت کی ہو۔یا شوشی لگائی ہو۔۔سیاہی ڈال کر استاد کے کپڑے خراب کرنے والے پاگل کی انکھیں اس وقت کھلیں جب وہ پہلی بار 2002میں ایک سرکاری ہائی سکول میں سینئر ٹیچر تعینات ہوا۔پاگل اب رات کو بہت روتا ہےاوراللہ کے حضور معافی بھی مانگتا یے،اللہ غفور رحیم ہے ۔سیاہی ڈالنے کے دوران شبیر چوہدری کی ہنسی نکلتے نکلتے رہتی ہے۔زبیر احمد کہتاہے کہ شبیرکو یہاں کیا ہوجاتا ہے۔ورنہ تو اس کی ہنسی ایسی ہے جیسے گونگی عالم شباب میں “گل زماں”کو دیکھ کر ہنستی رہتی ہے،ہنس بھی لیا اور خاموشی کالبادہ بھی اوڑھے رکھا۔۔اب اپ سوچیں گے کہ یہ “گل زماں “کون ہے اخر۔؟۔۔اگر معلوم ہو تو مجھے بھی بتانا ہے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *