Author Editor Hum Daise View all posts
خالد شہزاد
پنجاب کے وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور رمیش سنگھ آروڑہ کا انگریزی اخبارات میں اقلیتوں کے حقوقِ برابری پر زور دینا، اور ساتھ ہی سندھ اسمبلی میں روما مشتاق کے بیان سے “خدا کا بیٹا” جیسے الفاظ کے حذف ہونے کا واقعہ، یا جڑانوالہ میں مسیحیوں پر تشدد کے مرتکب افراد کا بری ہو جانا — یہ تمام واقعات پاکستان میں اقلیتوں کی صورتِ حال کے ایک پیچیدہ اور المناک تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں: آئینی وعدوں اور عملی نفاذ کے درمیان گہری خلیج۔
آئین اور قانون: روشن وعدے
پاکستان کا آئین اور قانونی ڈھانچہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کافی واضح اور روشن خیال نظر آتا ہے:
آرٹیکل 20: ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی، عمل اور تبلیغ کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 21: کسی شخص کو اس کے مذہب پر عمل کرنے پر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
آرٹیکل 22: تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلبہ کو اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرنے یا مذہبی تقریبات میں شرکت سے روکا نہیں جا سکتا۔
آرٹیکل 25: قانون کے سامنے سب مساوی ہیں اور قانون کی مساوی حفاظت کے حقدار ہیں۔
آرٹیکل 36: ریاق اقلیتوں کے جائز حقوق و مفادات کا تحفظ کرے گی۔
قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ 2020: اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا۔
ان شقوں کے مطابق، روما مشتاق کو اسمبلی میں اپنے عقیدے کے مطابق “خدا کا بیٹا” کہنے کا پورا حق تھا۔ جڑانوالہ کے مسیحیوں کو ان کے گھروں، عبادت گاہوں اور جان و مال کا مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے تھا، اور مجرموں کو سزا ملنی چاہیے تھی۔ وزیر آروڑہ کے بیانات انہی آئینی ضمانتوں کی بازگشت ہیں۔
زمینی حقائق: تلخ سچائیاں
لیکن عملی صورت حال اکثر اس آئینی فریم ورک سے بہت مختلف نظر آتی ہے:
مذہبی اظہار پر پابندیاں اور خوف: سندھ اسمبلی کا واقعہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ اقلیتی برادریوں کے اراکین اکثر خوف یا مصلحت کی بنا پر اپنے عقائد کا کھل کر اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ کسی بھی بیان کو “توہینِ مذہب” کے الزام کی نظر ہونے کا خدشہ مستقل موجود رہتا ہے۔
توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال: بلاسفیمی قوانین اکثر ذاتی دشمنیوں، زمینی تنازعات یا اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، جس کا خوف انہیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
عدالتی نظام میں ناکامیوں اور تعصبات کا شکار ہونا: جڑانوالہ کیس جیسے واقعات میں مجرموں کا بری ہو جانا (جو اکثر ثبوتوں کی کمی، دباؤ یا عدالتی عمل میں سست روی کی وجہ سے ہوتا ہے) انصاف کے نظام پر اقلیتوں کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ قانون ان کی حفاظت نہیں کرتا۔
معاشرتی تعصب اور تشدد: ہندوؤں، مسیحیوں، احمدیوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے خلاف جبری تبدیلیِ مذہب، اغوا، جائیداد ہتھیانے، عبادت گاہوں پر حملے اور سماجی بائیکاٹ جیسے واقعات بدستور رپورٹ ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے میں گہرائی تک سرایت کرے ہوئے تعصب کی علامت ہیں۔
سیاسی عہدوں پر محدود اثر رسوخی: اگرچہ اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں موجود ہیں، لیکن ان اراکین کی اکثریت کی حکومتی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اکثر انہیں اپنی برادری کے حقیقی مسائل پر موثر آواز اٹھانے سے روکتی ہے۔
لفظی آزادی: ایک نامکمل تصویر
اس پس منظر میں، وزیر آروڑہ کے بیانات، اگرچہ اہم اور حوصلہ افزا، صرف “لفظی آزادی” (Rhetorical Freedom) کی حد تک ہیں۔ یہ بیانات:
آئینی اصولوں کی توثیق تو کرتے ہیں، لیکن اکثر ان عملی چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہتے ہیں جن کا سامنا اقلیتی برادریاں کر رہی ہیں۔
حکومتی موقف کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر ان کے مؤثر نفاذ کی ضمانت نہیں دیتے۔
امید کی کرن ضرور دکھاتے ہیں، لیکن جب تک ان کے ساتھ عملی اقدامات (جیسے توہینِ مذہب کے قوانین میں اصلاحات، مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے مضبوط عدالتی کارروائی، اقلیتی امور سے متعلق اداروں کو حقیقی اختیارات دینا، تعلیمی نصاب میں رواداری کو فروغ دینا، اور فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی) نہیں ہوتے، یہ بیانات اکثر بے اثر محسوس ہوتے ہیں۔
نتیجہ: وعدوں سے عمل کی طرف سفر
یہ کہنا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو آئین و قانون کے مطابق “برابر کے حقوق میسر ہیں”، ایک نامکمل بیان ہوگا۔ حقوق کاغذ پر موجود ہیں، لیکن ان کا حصول اور تحفظ اکثر نامکمل، غیر یقینی اور چیلنجوں سے بھرپور ہے۔
روما مشتاق کے الفاظ کا حذف ہونا اور جڑانوالہ کے مجرموں کا بری ہو جانا اس بات کی واضح علامت ہے کہ آئینی تحفظات عملی طور پر کس طرح کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اقلیتوں کی حقیقی آزادی اور برابری صرف بیانات سے نہیں، بلکہ مندرجہ ذیل اقدامات سے ممکن ہو گی:
آئین میں دیے گئے حقوق کا مستقل، بلا خوف و خطر اور موثر نفاذ۔
توہینِ مذہب کے قوانین میں واضح اور غیر متعصبانہ تعریف اور ان کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات۔
عدالتی نظام میں اصلاحات تاکہ اقلیتوں کے خلاف جرائم میں فوری اور غیر جانبدارانہ انصاف یقینی بنایا جا سکے۔
فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی کا سختی سے نفاذ۔
تعلیمی نصاب اور معاشرتی رویوں میں رواداری، برداشت اور انسانی وقار کی قدریں فروغ دینا۔
وزیر آروڑہ جیسے بیانات کا استحقاق ہے، لیکن ان کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو بدلنے اور ان آئینی وعدوں کو حقیقت میں ڈھالنے میں کتنا موثر ثابت ہوتے ہیں۔ اقلیتوں کو مکمل اور بلا خوف برابری کا حق دلانے کا سفر تب ہی مکمل ہوگا جب آئین کے الفاظ صرف کاغذوں پر نہیں، بلکہ پاکستان کی ہر گلی، ہر عدالت، ہر اسمبلی اور ہر شہری کے دل و دماغ میں جگہ پا لیں گے۔ یہ سفر مشکل ضرور ہے، لیکن ایک جمہوری اور منصفانہ پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔
سندھ اسمبلی میں روما مشتاق کے بیان کے حذف ہونے کا واقعہ پیپلز پارٹی کی سیاسی مصلحت پسندی اور آئینی اصولوں کے درمیان گہرے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سوال کے متعدد پہلوؤں کا جائزہ درج ذیل ہے:
واقعے کی تفصیل اور آئینی خلاف ورزی
روما مشتاق نے اسمبلی میں اپنے عقیدے کے مطابق “خدا کا بیٹا” کا لفظ استعمال کیا، جس پر جماعت اسلامی کے اراکین کے اعتراض کے بعد سپیکر آغا سراج درانی (پی پی پی) نے اسے کارروائی سے حذف کروا دیا۔
یہ عمل آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 کے واضح خلاف ہے، جو ہر شہری کو مذہبی اظہار کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ نیز آرٹیکل 36 اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیتا ہے .
پی پی پی قیادت کی خاموشی کے اسباب
سیاسی مصلحتیں: پی پی پی سندھ میں 16 سال سے برسراقتدار ہے، لیکن اس کی حکمرانی کرپشن، نااہلی اور بیرونی دباؤوں (خاص طور پر مذہبی جماعتوں) کے سامنے جھکنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ خود تسلیم کر چکے ہیں کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت “خراب” ہے ۔
مذہبی دباؤ: 2024 کے انتخابات میں پی پی پی نے قدامت پسند ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کے لیے مذہبی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنائی ہے۔ روما مشتاق کے معاملے میں خاموشی اسی حکمت عملی کا حصہ لگتی ہے ۔
اقلیتوں کے لیے علامتی حمایت: پی پی پی نے رمیش سنگھ آروڑہ جیسے اقلیتی وزراء کے بیانات کو فروغ دیا ہے، لیکن عملی اقدامات (جیسے جڑانوالہ کے مسیحیوں کو انصاف دلوانا) ناکام رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتوں کی حمایت محض “لفظی آزادی” (Rhetorical Freedom) تک محدود ہے .
قیادت کا ممکنہ ردعمل: “نوٹس” لینے کے امکانات
صورت حال 1: رسمی مذمت بغیر عملی اقدام کے
پی پی پی سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت (تقریباً 100 اراکین) رکھتی ہے، لیکن اس کے باوجود سپیکر کی کارروائی پر خاموشی اختیار کی گئی۔ اگر قیادت نوٹس لیتی بھی ہے تو ممکنہ طور پر یہ ایک بیانیہ جاری کرنے یا داخلی تفتیش تک محدود رہے گا
جس کا کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ایسے معاملات میں پارٹی “آئین کی بالادستی” کے دعوے تو کرتی ہے مگر عملاً مذہبی دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے ۔
صورت حال مکمل نظرانداز
پی پی پی فی الحال وفاقی حکومت کے ساتھ کشمکش (مثلاً پانی کے تنازعات) اور سندھ میں اپنی مقبولیت میں کمی جیسے مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں روما مشتاق جیسے واقعات کو “غیرترجیحی” سمجھا جا سکتا ہے۔ پارٹی کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سیاسی بحرانوں میں اقلیتی حقوق کو نظرانداز کرتی آئی ہے .
سندھ اسمبلی کے نظام کی کمزوریاں
سپیکر کی جانب داری : سپیکر آغا سراج درانی پہلے بھی اپوزیشن کو بولنے کا موقع نہ دینے، اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے اور پی پی پی کے مفادات کو ترجیح دینے پر تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی کے مطابق سندھ اسمبلی میں “اپوزیشن کو اہمیت نہیں دی جاتی” ۔
اقلیتی نمائندگی کا ڈھونگ : پی پی پی نے 2024 کے انتخابات میں شام سندر ایڈوانی جیسے نئے اقلیتی چہرے متعارف کروائے، لیکن ان کی پالیسیاں زمینی سطح پر اثرانداز نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر سندھ میں 78 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور 44% گھرانوں کو گیس کی سہولت میسر نہیں—ان مسائل پر اقلیتی اراکین موثر آواز نہیں اٹھا پاتے .
نتیجہ: “وقت گزاری” کی پالیسی جاری رہنے کے امکانات
موجودہ شواہد سے اشارہ ملتا ہے کہ پی پی پی قیادت:
مذہبی جماعتوں کے دباؤ کو تسلیم** کر چکی ہے، جس کا ثبوت سپیکر کا فیصلہ اور پارٹی سربراہ بلاول بھٹو کی خاموشی ہے۔
سیاسی مفادات کو اقلیتوں کے آئینی حقوق پر ترجیح دے رہی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سندھ میں پارٹی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے ۔
روما مشتاق جیسے اراکین پارٹی کے اندر “علامتی نمائندگی” کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن انہیں حقیقی سیاسی طاقت حاصل نہیں۔ پارٹی ڈسپلن کے تحت وہ سپیکر کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتیں ۔
خلاصہ
پی پی پی قیادت کے “نوٹس” لینے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، کیونکہ یہ واقعہ پارٹی کی جمہوریت مخالف اور مذہبی انتہا پسندی کے سامنے جھکنے کی مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔ جب تک سندھ کی عوام، سول سوسائٹی اور میڈیا اس معاملے پر دباؤ نہیں بناتے، پی پی پی اپنے کرپٹ اشرافیہ نظام اور مفاد پرستانہ مصلحتوں کے تحت “وقت گزاری” جاری رکھے گی۔ اس عمل کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور اقلیتوں کے اعتماد کو پہنچ رہا ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *