اعظم معراج Author Editor Hum Daise View all posts
اعظم معراج
پاکستان کی پہلی کانسٹوینٹ( دستور ساز)اسمبلی میں جداگانہ طریقہ انتحاب کے زریعے منتخب ہونے والے مذہبی اقلیتوں کی تعداد پہلے تو 14تھی۔جن میں سے 13کا تعلق مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلادیش)سے تھا۔اور ایک ممبر اسمبلی کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بعد میں 1949 تا 1954 اس اسمبلی میں تبدیلیاں کی گئی ، ایک پنجاب سے اور ایک کراچی سے مزید دو اقلیتی ممبران کو مزید شامل کیا گیا ۔ جس سے یہ تعداد 16 ہوگئی۔۔۔یہ فہرست مندرجہ ذیل ناموں پر مشتمل ہے ۔۔پریم ہری بھرما،راج کمار چکرا ورتی،سارس چندرا،چھوٹو پڈھ یا یا ,اکشے کمار داس ،دھیرن دھرن ناتھ ،بھوپندرا کمار دتا .جندرا چندرا موجمدار . بھرت چندرا منڈل ۔ جوگںندرا ناتھ منڈل .دھنن جوئے رائے ،مودی بخیش چندا،ہرایندر کمار سر ،قوی کرور دتا گنگا سرن ( مغربی پنجاب) 1949 تا 1954 کی گئی تبدیلیاں ۔سیٹھ سکھ دیو کانچی ( کراچی) بھندرا پی ڈی (لاہور پنجاب) رلیا رانا ،( لاہور پنجاب)شک ہے۔ کہ یہ نام رلیا رام ہوگا اور یہ مسیحی تھے ۔ یہ یقیناً اس لئے شامل کیا گیا ہوگا کہ پنجاب سے وہ واحد ہندؤ ممبر قومی اسمبلی قوی کرور دتا گنگا سرن بھی ہجرت کر گیا ہوگا ۔کیونکہ 1947 کے بعد 50 کی دہائی تک بلکہ ساٹھ کی دہائی تک سرحدوں پر کشیدگی بڑھنے تک دونوں طرف سے ہجرت کا عمل جاری تھا ۔ شروع میں مسحیوں کی قومی اسمبلی میں غیر موجودگی کی وجہ یہ رہی ہوگی ،کہ مسیحی آبادی کی بہت بڑی اکثریت صرفِ پنجاب میں آباد تھی ۔اس لئے سکہ بند قسم کے سیاستدان پنجاب کی سیاست میں ہی متحرک تھے ۔۔ بعد میں مسحیو کے نمائندے رلیا رام جو کہ آزادی ہند کے بھی لاہور کے نمایاں راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ انھیں پنجاب کی اقلیتوں کی نمائندگی قومی اسمبلی میں بھی دکھانے کے لئے اس وقت کی ریاستی و حکومتی اشرفیہ نے شامل کیا ہوگا۔لیکن یہ طے ہے، کہ مسحیوں کی سیاست کا محور و مرکز پنجاب ہی تھآ۔ جبکہ مسحیو کی آبادی1951میں مغربی پاکستان میں وزرات شماریات کے ریکارڈ کے مطابق432705 تھی۔ جب کہ این جی اوز خصوصاً مسحیو کی این جی اوز نے پاکستان میں اس آدھے سچ کی خؤب تشہیر کی ہے۔ کہ اقلیتیں تقسیم کے وقت 25 فیصد تھیں ۔۔ یہ آدھا سچ ہے۔۔
کیونکہ 1947 کے بعد 50 کی دہائی تک بلکہ ساٹھ کی دہائی تک سرحدوں پر کشیدگی بڑھنے تک دونوں طرف سے ہجرت کا عمل جاری تھا۔ چند دن پہلے ایک پادری صاحب گرجے کے پلیٹ فارم سے یہ کہہ رہے تھے۔کہ ہماری آبادی اس وقت 25 فیصد تھی۔۔ اور اسمبلی میں نمائندگی بھی 25 فیصد تھی ۔ جبکہ 1951,1961, کی آبادی اعدادوشمار مسحیو کے بارے میں کچھہ اور ہی تصویر دکھاتے ہیں ۔۔ اس لئے ایسے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے کوشش یہ ہونی چایئے کہ مکمل سچ اور ہر نقطہء نظر سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے ۔۔ اگر اقلیتی آبادی تقسیم ہند کے وقت ان علاقوں میں 25 فیصد تھی بھی تو اس میں واضح اکثریت ہندوؤں کی ہی تھی ۔۔ 1951 سے 2023 تک کی سات مردم شُماریوں کے اعدادوشمار و دیگر ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق قیام پاکستان کے بعد سے آج تک پہلی باقاعدہ کاغذی نسل کشی کی جس کوشش کے شواہد ہیں۔شیڈول کاسٹ کے 1981 کی مردم شماری میں ہیں۔جب انکا خانہء وزارت شماریات سے ختم کرکے انکی آبادی کو ہندو جاتی میں ضم کردیا گیا۔بعد میں جب انکے احتجاج پر 1998 میں یہ خانہء جب 26 سال بعد دوبارہ شروع کیا گیا تو شیڈول کاسٹ کی اس ضم شدہ آبادی کو ہندو جاتی میں ہی رہنے دیا گیا۔۔اور انکی گنتی نئے سرے سے شروع کی گئی۔اس غلطی یا واردات کے ثمرات ہندو جاتی اور اس سے پیدا شدہ استحصال کے عذاب آج تک شیڈول کاسٹ ہندوز سہہ رہے ہیں۔ یہ ہی واردات یا غلطی
2017 کی مردم شُماری میں مسیحیوں کے ساتھ دوہرائی گئی۔جسکے اثرات 2023 کی مردم شُماری میں بھی واضح ہیں۔حسین اتفاق یہ ہے کہ اس کاغذی نسل کشی کے بینفشری بھی ہندو جاتی امراء ہیں۔۔اس لئے سیاسی سماجی و مذہبی ورکروں سے گزارش ہے ۔۔اس مسلئے کو اٹھانے کے لئے تھوڑی سی تحقیق ضرور کر لیا کریں ۔۔
پاکستان کی وفاقی سیاست پر بنگال سے تعلق والے شیڈول کاسٹ راہنماہ جوگندر ناتھ منڈل کی شیڈول کاسٹ فیڈریشن چھائی ہوئی تھی .. لیکن یہ کیسا المیہ ہے ،کہ جوگندر ناتھ منڈل کی توجہ بھی سندھ کی بہت بڑی شیڈول کاسٹ آبادی کی طرف توجہ نہ دے سکا۔اور نہ ہی چولستان کے پنجابی شیڈول کاسٹ ہندؤوں پر انکی نظر پڑی ۔۔جب کہ وہ ایک وفاقی حکومت کے پہلے وزیر قانون ہونے کہ ناتے ایک قومی راہنماہ تھے۔ پہلی اسمبلی کے دوران ہی وہ استعفی دے، کر ہندوستان ہجرت کرگئے ۔ دوسری قومی اسمبلی تک بنگال کی شیڈول کاسٹ فیڈریشن کی اسمبلی میں خاصی نمائندگی رہی، لیکن پھر شیڈول کاسٹ آہستہ آہستہ پاکستان کی قومی سیاست سے بلکل باہر ہو گئے ۔۔ سندھ کے شہری علاقوں ،دہی سندھ کے صحراؤں اور پنجاب کے چولستان کے ہندؤ دھرم کے بچھڑے ہوئے دھرتی کے بیٹوں کی یہ بڑی بدنیصی رہی، کہ جب گاندھی جی انھیں ہریجن راؤ بھیم جی دلت آور گورے نے انکو شیڈول کاسٹ قرار دے کر ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر سماجی بھلائی فکری ، شعوری، تعلیمی، معاشی معاشرتی،ترقی و تہذیبی ترقی کی جو راہیں ہموار کرنے کی کوششیں کی ۔لیکن ہندؤ دھرم کے یہ بچھڑے ہوئے دھرتی واسی اس فکری انقلاب سے کوسوں دُور تھے ۔ اس لا علمی کی وجہ سے آج وہ اپنی اس شناخت کو قابل فخر سمجھنے کی بجائے تاریخ کے جبر اور ذات پات کے ہزاروں سال پرانے نظام کے زیرِ اثر کوئی انھیں اس شناخت کی بنیاد پر اجتماعی سیاسی ؤ سماجی معاشرتی جدو جہد کی طرف راغب کرے۔۔ تو یہ اسے اپنے آپ سے چھپنے کے مرض میں مبتلاء ہونے کی بنا پر قابلِ شرم گردانتے ہوئے اپنی لا علمی کی بنیاد پر اپنی اس شناخت سے انکاری ہیں ۔۔ جبکہ موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام کی جمہوری غلامی والے حصے کی وجہ سے ان میں سے روٹی کے چکر سے ذرا سے اوپر اور سمجھدار لوگوں کی ساری توانائیاں نمائندگی کی ترجیحی فہرستوں میں نام ڈالوانے کی تگ دو میں صرف ہو جاتی ہیں ۔یا کسی چھوٹی موٹی این جی او کے ہتھے چڑھ کر مخصوص سمت میں چلنے کے کھوپے پہن کر اسی سمت میں عمر کا سفر تمام کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں شیڈول کاسٹ اور مسحیوں کے سیاسی و سماجی ورکروں کا رؤیہ ایک سا ہی ہے بس مسیحی شناخت کی بدولت یہ تعلیم یافتہ زیادہ ہیں اور مذہبی اداروں کے خاص تاریخی پس منظر کی وجہ سے مغربی و امریکی این جی اوز اور دیگر بھلائی کے اداروں تک ان کی رسائی زیادہ ہے۔ ایک اور بڑا فرق مسحیوں کی مذہبی ورکروں کی بھی سماجی و سیاسی معمالات میں بڑی دلچسپی ہے ۔۔اور انھیں اپنی عالمی شناخت کی بدولت سرکار دربار میں رسائی بھی زیادہ ہے ۔۔اسلے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں کمیونٹیز کی،اکثریت کے قدیم نسلی تعلق کی بنا پر اکثریت کے رویئے ایک جیسے ہی ہیں۔۔بس فرق اتنا ہے۔کہ مسحیوں کے تین طبقے جو کا بہت بڑی تعداد میں بہت بڑی مقدار میں کررہے ہیں ۔۔شیڈول کاسٹ ہندؤوں کے دو طبقے بہت کم تعداد میں بہت چھوٹی مقدار میں کرنے کی کوشش کر رہےہیں ۔۔جس میں انفرادی ترقی و بقاء کا عنصر نمایاں ہے ۔ اسلئے اس ماڈل سے کبھی بھی اجتماعی بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ان کے بچھڑنے ہوئے بھائیوں میں سے زیادہ وسائل والے نظریاتی سیاست دانوں کی 1947 میں ہجرت کی وجہ سے باقی رہ جائے والے ساہو کاروں، دوکان داروں میں اس سیاسی افکار و اعمال کا شدید فقدان ہے ۔۔جو برصغیر میں انگریز کی آمد کے بعد سے ہندؤ دھرم کی سیاست و عوامی بھلائی کے کاموں سے وابستہ شخصیات کا طرہ امتیاز تھا ۔۔ان میں سے صرفِ ایک ایسی شخصیت نے ہجرت نہیں کی۔وہ تھے معروف کمیونسٹ سیاستدان و ادیب سوبھو گیان چندانی پاکستان کی سیاست کا المیہ کے کمیونسٹوں کی سیاست کو امریکی تسلط کے زیر اثر پاکسانی معاشرے میں شجر ممنوع قرار دے دیا گیا ۔۔اس لئے سوبھو کی سیاست سے بھی اسکی کمیونٹی کو فائدہ پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.اس لئے ان کے بچھڑے ہوئے وسائل والے بھائی بھی صرف مفادات کی سیاست ہی کرتے ہیں۔انکے موجودہ سیاسی سماجی ورکروں سے گزارش ہے، کہ اپنے پیٹ اور بقاء کی جنگ کے ساتھ اپنی نوجوان نسلوں کی فکری راہنمائی حقائق کی بنیاد پر کریں۔اور اپنی ذات برادریوں کی سیاست سے اوپر اٹھ کر پاکستان کے معروضی حالات میں اپنے دلت سماج کے ساتھ ہندؤ دھرم میں اپنے بچھڑے ہوؤں کے ساتھ بھی ہم آہنگی پیدا کرکے انھیں احساس دلائیں ہم آپکے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں ۔دونوں طرف سے دل بڑا کرکے کے وسائل اور تعداد کا امتزاج دونوں فریقین کو پاکستان کی سیاست میں پروقار مقام دلوا سکتا ہے ۔۔ حقارت اور نفرت کی یہ خلیج ایسے ہی ختم ہو سکتی ہے ۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *