مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


جاگتی آنکھوں کا خواب

جاگتی آنکھوں کا خواب

  Author Hum Daise View all posts

 

سنیل گلزار
میں کچھ عرصہ بعد یہ سب لکھ رہا ہو کیوں کے کچھ ذاتی مصروفیت ااور طبیحت کی خرابی وجہ سے لکھ نہیں پا رہا تھا ۔
اس دوران سیاسی منظر نامہ اور تیسری جنگ عظیم کی تیاری کی ہر با شحور انسان کو جھنجوڑ رہی ہیں
میرا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے اور یہ ایمان ہے کے دنیاوی دنیا سے ہم کو ایک نا ایک دن واپس جانا ہے کیوں اس چیز سے تو نبی پیغمبر کو نہیں بحشا یہ ایک امتحان ہے جس میں ہر بندہ کوشش کر رہا ہے کے میں دوسروں سے بہتر نظر آوں یا بہتر کھیل پیش کرو ۔
میں آج آپ سے ایک موضوع پر اپنی سوچ شر کرنا چاہتا ہو پاکستان کی اقلیتی سیاست کا منظر نامہ ۔
1_چونکہ میرا ذاتی تعلق بھی ایک سیاسی جماعت سے ہے یا سمجھ لیں میں اسکا ایک ادنا سا رکن ہو میں آے روز یہ دیکھتا ہو کے ہمارے مسیحی نماندگان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف عمل رهتے ہیں
یہ حالت صرف سیاسی نہیں بلکہ ہر لیڈر نے اپنا محاذ کھولا ہوا ہے چاہے وه مذھبی سیاسی اور سماجی لیڈر ہو ۔
ایک طرف آج سپر پاور امریکا کی ایک بڑی اسٹیٹ میں ایک مسلمان میئر منتخب ہوا ہے جو مستقبل قریب میں اس صوبہ کا گورنر جنرل بن کر وزیر یا صدر بن جائے گا ایک طرف میرا ملک ہے اور میں اس کا وه شہری ہو جس کے آباو اجداد کسی جگہ سے ہجرت کر کے نہیں آے مگر پھر بھی اپنوں میں اپنی شناحت تلاش کر رہا ہے ۔
چند روز پہلے ایک مسیحی رکن پارلیمنٹ کو اسکے ہی ایوان میں هدف تنقید بنایا گیا کے محظ اس نے صرف اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ھوۓ اپنی بات شروع کی تھی جس کو بعد میں انکی تقریر سے هزف کروا دیا گیا جو کے بالکل بھی مناسب عمل نہیں تھا ۔کیوں کے پاکستان کا آئیں ہر شہری کو اجازت دیتا ہے کے وه بلا حوف خطر اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کر سکے اور اسمبلی فلور پر اپنی بات کا آغاز کر سکے لیکن یہاں الٹی گنگا بہنے کا رواج ہے ۔
اسی طرح کا عمل پاکستان کی سب سے سپریم پارلیمنٹ جس کو سنیٹ کھا جاتا ہے وہاں پر ایک مسیحی سینیٹر کو محض اس کی ذات کو لے کر انکا مذاق بنایا گیا یہ روز مرہ کا کام ہے ۔ویسے تو ہم برابر کے شہری ہیں لیکن کوئی ایسا موقع نہیں ہے جہاں ہم کو اپنی اوقات یاد نا کروائی جاتی ہو ۔
صوبہ پنجاب میں ایوانوں کی صورت حال کچھ بہتر ہے کیوں کے یھاں کی وزیر اعلی کا یہ موقف ہے کے اقلیت میرے سر کا تاج ہے اور یہاں ایوان میں بات کرنے پر زیادہ تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس کا ایک خلا ضہ یہ ہے اس ہفتے میں ایک رکن پارلیمنٹ نے بہت ساری ڈیمانڈ پیش کی جو کے ساری تو پوری کرنا میرے خیال سے خکومت کے لئے بھی بڑا مشکل ٹاسک ہو گا ان میں سے ایک ڈیمانڈ دل کو چھو جانے والی ہے کے اقلیتوں کو انکے نماندگان خود چننے دیا جائے یعنی سپرٹ الیکشن دیا جائے یا ڈبل ووٹ کا حق دیا جائے ۔ چونکہ بھائی نے بہت ساری باتوں کا ذکر کیا کے کیسے کسی منظور نظر کو نوازہ جاتا ہے حالانکہ بھائی بھی سلیکشن سسٹم سے ہی منتحب ہو کر آے ہیں ۔
میرا آپ سب پڑھنے والوں سے ایک سوال ہے کیا ہم نے ہر جگہ ٹانگ آڑانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے کیوں کے اس ملک میں بہت ساری دوسری اقلیتں بھی موجود ہیں جو کے زیادہ طرح حکمرانوں کے جی حضوری کر کے سب سے بڑی مسیحی اقلیت کو پچھاڑ چکے ہیں ۔
میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے ان لوگوں نے ان پرشانیوں سے نبٹنے کے لئے ایک جماح پالیسی بنا لی ہے انہوں نے نے اپنی نوجوان نسل کو تعلیم کے زیور کی اہمیت کا بتا چکے ہیں اس لئے تو ہمارے مسیحی بچے کوٹہ جاب پر پورا نہیں اتر رہے اور ایک دوسری اقلیت کے نوجوان اوپن میرٹ پر بڑے بڑے عھدے حاصل کر رہے ہیں ۔
میری ناقص راے یہ ہے کے ہم مسیحی جو اس وقت لگ بھگ چو تھے درجے کے شہری ہیں ہم کو اس وقت ایک اتحاد کی ضرورت ہے جو بلا تفرق اپنی ذات کی نفی کرے اور ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجتے ہوے اسکو سپورٹ کریں چاہے وه مذہبی۔سیاسی و سماجی قیادت ہوں ۔اپنے اندر برداشت پیدا کرے چو نکہ بیشتر مسائل کا حل ہمارے سیاسی نماندگان کے پاس ہے وه بھی اب اسمبلی میں تقریرں کم اور قانون سازی زیادہ کریں اپنی قوم کی بہتری کے لئے جامح پالیسیز ترتیب دیں ۔
نوجوان نسل کو تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیں اپنی بیٹیوں کو احساس کم تری سے نکلایں انکو اپنی مذہبی تعلیم کے ساتھ جدید علوم بھی پڑھایں تا کے وه بھٹک نا جائے اور معاشرے کی چند دن کی چکا چوند کو دیکھ کر کسی نو دولتی کے ہاتھوں اپنی عزت گوا نا بیٹھے اور نا ہی اپنا مذھب تبدیل کر سکے ۔
مجھے معلوم ہے یہ میرا خواب ہے لیکن کوشش کرنے سے یہ سب ممکن بنایا جا سکتا ہے آج نہیں تو کل ہماری نسل میں بھی کوئی بڑے شہر کا میئر یا وزیر اعلی منتحب ہو اور ایک صاف ستھرا ماحول دیکھ پائے ۔ہمارے بچے کسی بھی قسم کے دباو کا شکار نا ہو نا زبردستی کسی کا مذھب تبدیل ہو نا ہی کسی کے پیشے یا نوکری کو اس کے مذھب سے جوڑا جائے اور اسکو کسی غلط نام سے پکارا جائے
میں مانتا ہوں کے ابھی تک مسیحی قوم کو کوئی بہترین سیاسی لیڈر نہیں ملا کیوں کے میری قوم کو موسیٰ جیسے لیڈر کی ضرورت ہے جو اپنے بھائی اور اپنی قوم کو مضبوط کرے نا کے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے

Author

Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author