مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا تناسب( تاریخی و تجزیاتی جائزہ)

تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا تناسب( تاریخی و تجزیاتی جائزہ)

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

تحریر:سموئیل بشیر۔
14 اگست 1947 کو جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو یہ ایک غیر معمولی جغرافیائی اکائی تھی، دو بازو، مشرقی اور مغربی پاکستان، ایک ہزار میل سے زائد کے فاصلے پر، جنہیں مذہب کے نام پر یکجا کیا گیا تھا۔ اگرچہ پاکستان کی بنیاد مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے طور پر رکھی گئی، لیکن اس کے ابتدائی معاشرتی ڈھانچے میں مذہبی اقلیتوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ان اقلیتوں کی موجودگی، کردار اور بتدریج کمی کا جائزہ ایک نہایت اہم اور کم توجہ پانے والا پہلو ہے۔
مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں مذہبی اقلیتیں
مغربی پاکستان میں تقسیم کے وقت مذہبی اقلیتیں نسبتاً قلیل تعداد میں موجود تھیں۔ یہاں کے بیشتر ہندو اور سکھ پنجاب اور سندھ میں آباد تھے، تاہم فسادات، ہجرت اور ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں ان کی اکثریت بھارت منتقل ہو گئی۔ 1951 کی مردم شماری کےمطابق;
کل آبادی: تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ
ہندو: 1.6%
مسیحی: 1.2%
سکھ، پارسی، احمدی اور دیگر: 0.2%
کل غیر مسلم مذہبی اقلیتیں: تقریباً 3%
کراچی، لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے شہروں میں مذہبی اقلیتوں کی محدود لیکن منظم کمیونٹیز موجود تھیں، جنہوں نے تعلیم، طب، تجارت اور سرکاری خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں مذہبی اقلیتیں:
مشرقی پاکستان کی آبادی میں مذہبی اقلیتوں، خصوصاً ہندوؤں، کا نمایاں حصہ تھا۔ یہاں صدیوں سے بنگالی ہندو مسلم معاشرہ ساتھ ساتھ چلتا آ رہا تھا۔
اہم اعداد و شمار:
کل آبادی: تقریباً 4 کروڑ 20 لاکھ
ہندو: 22–28%
مسیحی، بدھ اور دیگر: 1–2%
کل غیر مسلم مذہبی اقلیتیں: تقریباً 24–30%
مشرقی پاکستان میں مذہبی اقلیتیں صرف عددی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ثقافتی، تعلیمی اور اقتصادی سطح پر بھی اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی، کلکتہ کے ساتھ روابط اور بنگالی زبان و ادب میں ہندو دانشوروں کا حصہ قابلِ ذکر تھا۔
تقسیم کے بعد بڑے پیمانے پر ہجرت اور تشدد نے دونوں طرف مذہبی اقلیتوں کی آبادیات کو متاثر کیا۔ مغربی پاکستان سے ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں بھارت چلے گئے، جبکہ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی ایک قابلِ ذکر تعداد نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم 1950، 1964، اور پھر 1971 میں ہونے والے فسادات، اور ریاستی و سیاسی دباؤ نے مشرقی پاکستان میں بھی مذہبی اقلیتوں کی پوزیشن کو غیر مستحکم کیا۔
: اقلیتوں کی تعداد میں کمی چند اسباب
فسادات اور جبری ہجرتیں
قومی شناخت کا مذہبی تصور
پاکستان کی ابتدائی ریاستی پالیسیوں میں “مسلم قوم” کے تصور کو مرکزی حیثیت حاصل رہی، جس نے مذہبی اقلیتوں کو یکسر پسِ پردہ کر دیا۔
1956 کا پہلا اسلامی آئین
جس میں پاکستان کو “اسلامی جمہوریہ” قرار دیا گیا، اس نے اقلیتوں کو برابری کی شہری حیثیت سے محروم کیا۔
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشنز 1960s–1970s
جہاں ہندو برادری پر بھارت سے ہمدردی کے الزام لگائے جاتے رہے۔
1947 میں جب پاکستان قائم ہوا، تو یہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ ایک ایسا کثیر المذاہب سماج تھا جس میں ہندو، مسیحی، سکھ، بدھ اور دیگرمذہبی اقلیتیں بھی شامل تھیں۔ مغربی پاکستان میں اگرچہ ان کی تعداد کم تھی، لیکن مشرقی پاکستان میں وہ ایک تہائی کے قریب تھیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ریاستی بیانیہ، سیاسی ترجیحات اور تشدد نے اس تنوع کو کمزور کیا۔
آج پاکستان کی اقلیتیں، جو مجموعی آبادی کا 3 سے 4 فیصد بنتی ہیں، اپنی شناخت، مساوی حقوق، اور سماجی تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس تاریخی پس منظر کو سمجھے بغیر پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے موجودہ حالات کا ادراک ممکن نہیں۔
نوٹ: اس آرٹیکل کے لئیے ان دستاویز سے رہنمائی لی گیی ہے
Pakistan Census Report, 1951
K.K. Aziz – The Murder of History
Dr. Ishtiaq Ahmed – The Punjab Bloodied, Partitioned and Cleansed
Stanley Wolpert – Jinnah of Pakistan
Bangladesh Bureau of Statistics
S. Akbar Zaidi – Lectures on Political Economy of Pakistan

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author