Author Editor Hum Daise View all posts
خالد شہزاد
کلاس روم ہو یا چرچ، سرکاری نوکری ہو یا پرائیوٹ چاکری پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل کوئی نئی بات نہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اب یہ زہر تعلیمی اداروں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں اقلیتی طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، اور جہاں ہیں بھی وہاں ان کے ساتھ رویے تعلیمی برابری کے اصولوں کے بجائے امتیازی سلوک اور نفسیاتی دباؤ پر مبنی ہیں یہ رویہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاستی نصاب اور معاشرتی ماحول نے “افضل مذہب” اور “اعلیٰ مومن” کا تصور عام مسلمان شہریوں کے ذہنوں میں اس قدر راسخ کر دیا ہے کہ وہ دوسروں کو برابر کا شہری ماننے پر تیار نہیں، حالیہ رپورٹس کے مطابق ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں کیکراں والی اور ضلع منڈی بہاؤالدین کے سرکاری اسکولوں میں مسیحی بچیوں کو اساتذہ کی جانب سے جبراً اپنے مذہب کو ترک کر کے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ استاد، جو نئی نسل کے معمار کہلاتے ہیں، اگر خود ہی انتہا پسندی کا پرچار کرنے لگیں تو آنے والی نسلوں کا مستقبل کیسا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ایسا ہی ماحول پہلے پنجاب اور وفاق کی سرکاری جامعات میں ملتا تھا جہاں اقلیت سے تعلق رکھنے والے طلبا کو ہولی جسے تہوار منانے سے جماعت اسلامی کی جانب سے ڈنڈے کے زور پر روکا جاتا اور پر تشدد کاروائیوں کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کے سفاک رویہ اور خاموشی نے اس کا رخ اب کالجوں اور سکولوں کی جانب موڑ دیا ہے۔ اساتذہ، جو کہ بچوں کے مستقبل کو سنوارنے والے ہوتے ہیں، اگر خود ہی انتہا پسندی کے زیرِ اثر آ جائیں تو یہ قومی یکجہتی کے لیے خطرناک ترین رجحان ہے۔پاکستان کا آئین صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے (آرٹیکل 20)، کسی بھی بچے کو اس کے مذہب سے ہٹ کر تعلیم پر مجبور نہیں کیا جا سکتا (آرٹیکل 22) اور تمام شہری برابر ہیں (آرٹیکل 25)۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقلیتی بچے آج بھی کلاس رومز میں خوف اور امتیاز کے سائے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ صرف آئینی خلاف ورزی نہیں بلکہ عالمی وعدوں کی بھی پامالی ہے۔ پاکستان بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے CRC اور خواتین کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے معاہدے CEDAW پر دستخط کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر میں بھی مذہبی آزادی کو بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ مگر یہ تمام وعدے کاغذوں تک محدود ہیں، زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔حکومتی ادارے اور این جی اوز بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ وفاقی اور صوبائی وزارتِ انسانی حقوق اکثر یورپی یونین اور امریکی اداروں کو “سب اچھا” کی رپورٹ دیتی ہیں۔ پنجاب کمیشن برائے حقوقِ اطفال اور قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال (NCRC) بھی ایسے معاملات پر خاموش رہتے ہیں۔ این جی اوز فنڈنگ ضرور لیتی ہیں مگر متاثرہ خاندانوں کو عملی تعاون دینے کے بجائے محض رسمی بیانات جاری کر کے ذمہ داری پوری کر لیتی ہیں۔ یہی رویہ ہمیں 2013 کے آل سینٹس چرچ پشاور کے واقعے کے بعد بھی دیکھنے کو ملا۔ اس دلخراش دہشت گرد حملے میں درجنوں مسیحی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متاثرین کی بحالی، تعلیم اور علاج کے لیے ایک انڈومنٹ فنڈ قائم کیا۔ لیکن افسوس! بارہ برس گزرنے کے باوجود یہ فنڈ متاثرہ خاندانوں تک نہیں پہنچ سکا۔ الٹا اسے متنازع بنا کر تمام اقلیتوں کے لیے مختص کر دیا گیا، جس سے مسیحی برادری کے زخم مزید گہرے ہو گئے۔ یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کی نفی ہے بلکہ دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے لیے ایک خاموش پیغام بھی ہے کہ ریاست اپنے شہیدوں اور متاثرین کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان معاملات پر آزاد عدالتی کمیشن قائم ہو۔ انڈومنٹ فنڈ فوری طور پر آل سینٹس چرچ کے متاثرہ خاندانوں کو منتقل کیا جائے۔ نصابِ تعلیم کی اصلاح اور اساتذہ کی تربیت میں مذہبی رواداری کو شامل کیا جائے۔ این جی اوز اور عالمی اداروں کو بھی خاموش سفارت کاری کے بجائے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ عملی طور پر کھڑا ہونا ہوگا۔
ریاست کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اقلیتوں کو صرف آئین اور عالمی چارٹرز کے الفاظ سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، چاہے وہ کلاس روم ہو یا چرچ، اقلیتوں کی محرومی اور بے بسی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بیانیے کو اور زیادہ مضبوط کرتی رہے گی۔
ریاست اگر اپنے وعدے اور ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گی تو تاریخ یہ لکھے گی کہ ریاست نے اپنے ہی کمزور شہریوں کو دہشت گردی اور تعصب کے حوالے کر دیا۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *