مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


پسند کی شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اور راولپنڈی کی یوسیز میں اندارج پر پابندی ایک نیا تنازعہ

پسند کی شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اور راولپنڈی کی یوسیز میں اندارج پر پابندی ایک نیا تنازعہ

    Author Editor Hum Daise View all posts

 

 

تحریر: سموئیل بشیر

ہمارے معاشرے میں شادی محض ایک خاندانی رسم نہیں بلکہ سماجی و مذہبی رشتوں کا مضبوط ادارہ ہے۔ مگر جب نوجوان لڑکے یا لڑکیاں والدین کی مرضی کے بغیر اپنی پسند سے شادی کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ عمل خاندانی نظام، ریاستی پالیسیوں اور معاشرتی اقدار کے درمیان ایک نیا تنازع کھڑا کر دیتا ہے۔
حالیہ دنوں میں راولپنڈی میں پسند کی شادی کرنے یا کورٹ میرج کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے، جس پر لوکل گورنمنٹ نے راولپنڈی کی تمام یونین کونسلز کو ایسی شادیوں کی رجسٹریشن سے روک دیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنوری سے ستمبر 2025 کے دوران راولپنڈی کچہری میں 1,594 نکاح رجسٹر کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق زیادہ تر جوڑے دیگر اضلاع یا صوبوں سے آ کر راولپنڈی میں نکاح رجسٹر کراتے ہیں، کیونکہ یہاں عدالتی نکاح کا عمل نسبتاً آسان سمجھا جاتا ہے۔ یہ تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ اسی پس منظر میں محکمہ بلدیات پنجاب نے ایک باضابطہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ کوئی بھی یونین کونسل ایسی شادی رجسٹر نہ کرے جو والدین یا سرپرست کی رضامندی کے بغیر ہو۔ محکمہ بلدیات پنجاب کے مطابق، اس فیصلے کا مقصد کم عمری، جبر یا اغوا کے کیسز کے تناظر میں ہونے والے نکاحوں کو روکنا ہے۔ یونین کونسل رجسٹراروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اس ہدایت کی خلاف ورزی پر ان کے لائسنس منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔

تاہم، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان کا مؤقف ہے کہ بالغ شہریوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق آئینِ پاکستان کے تحت حاصل ہے، لہٰذا حکومتی پابندی انسانی حقوق کی حدود میں ایک نیا تنازع کھڑا کر سکتی ہے۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے پسندیدہ شریکِ حیات کے انتخاب پر والدین کی سخت مزاحمت کا سامنا کرتی ہے۔ اس مزاحمت کے نتیجے میں بعض جوڑے گھروں سے بھاگ کر نکاح کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم، میڈیا اور انٹرنیٹ نے نوجوانوں میں شعور پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، جو بعض اوقات روایتی خاندانی ڈھانچوں سے متصادم ہو جاتی ہے۔
راولپنڈی کچہری میں عدالتی نکاح کا طریقہ کار نسبتاً تیز اور کم پیچیدہ سمجھا جاتا ہے، جس سے دیگر علاقوں کے جوڑے بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
مالی مشکلات، طبقاتی فرق، اور بعض اوقات خاندانی ناانصافیاں بھی نوجوانوں کو خود فیصلہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ رجحان محض انفرادی نہیں بلکہ سماجی سطح پر تبدیلی کی علامت ہے۔ ایک طرف نوجوان نسل خود مختاری اور آزادی کی علامت کے طور پر اپنی پسند کی شادی کو دیکھتی ہے، دوسری جانب والدین اسے خاندانی نظام کے ٹوٹنے کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اگر دونوں فریق بالغ ہوں تو ان کا نکاح آئینی و شرعی طور پر درست ہے۔ تاہم، اگر حکومت پابندی لگا دیتی ہے تو غیر رجسٹرڈ یا خفیہ شادیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو قانونی تحفظ سے خالی ہوں گی۔ راولپنڈی کی فیملی عدالتوں کے اعداد و شمار کے مطابق، رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں 1,451 نئے خاندانی مقدمات درج ہوئے، جبکہ پورے سال میں 32,000 سے زائد کیسز عدالتوں میں آئے، جن میں طلاق کے 3,500 سے زیادہ معاملات شامل تھے۔ یہ اعداد و شمار سماجی تبدیلیوں، ازدواجی کشمکش، اور خاندانی عدم برداشت کے بڑھتے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔
معروف وکیل ایڈووکیٹ فرحت ناز کے مطابق:
“حکومتی اقدام نیک نیتی سے کیا گیا ہے مگر یہ بالغ شہریوں کے بنیادی حقِ ازدواج پر قدغن کے مترادف ہے۔ ایسے قوانین کے بجائے حکومت کو نکاح رجسٹریشن کے نظام کو شفاف اور تیز تر بنانا چاہیے۔”
سماجی ماہر ڈاکٹر شازیہ سلیم کا کہنا ہے
“یہ مسئلہ قانون سے زیادہ سماجی رویوں کا ہے۔ جب تک والدین اپنی اولاد کے فیصلوں میں اعتماد نہیں دکھائیں گے، نوجوان فرار کے راستے تلاش کرتے رہیں گے۔”
راولپنڈی میں گھر سے بھاگ کر شادیوں کا بڑھتا رجحان محض عدالتی نکاح کا معاملہ نہیں بلکہ ایک سماجی رویے کی علامت ہے۔ حکومت کا اقدام اگرچہ نیک نیتی پر مبنی ہے، مگر اس کے نفاذ میں انسانی حقوق اور آئینی آزادیوں کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔
یہ وقت ہے کہ معاشرہ مکالمے، آگاہی، اور قانون کے متوازن نفاذ کے ذریعے اس حساس مسئلے کو جذبات کے بجائے فہم و بصیرت سے سمجھے۔


Author

7 comments
Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

7 Comments

  • Shamim Mushtaq
    October 16, 2025, 9:54 am

    True %💯

    REPLY
    • Samuel Bashir @Shamim Mushtaq
      October 16, 2025, 9:59 am

      Thank you for responding

      REPLY
    • Nasreen Samuel @Shamim Mushtaq
      October 16, 2025, 10:08 am

      آپ نے درست کہا کہ آئین پاکستان ہر بالغ مرد و عورت کا حق ہے اور مقامی حکومتیں اس پر پابندی لگا کر آئیں سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں۔اسے کورٹ آف لاء میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔

      REPLY
  • Samuel Bashir
    October 16, 2025, 10:10 am

    جی ایسا ہی ہے راولپنڈی بار کونسل کے دوستوں سے مشاورت کے بعد کچھ سوچا جا سکتا ہے

    REPLY
  • Faizan janjua
    October 16, 2025, 11:15 am

    کیا یہ نوٹیفیکیشن صرف ضلع راولپنڈی تک محدود ہے یا صوبہ پنجاب بھر میں بھی ـ

    REPLY
    • Samuel Bashir @Faizan janjua
      October 16, 2025, 12:05 pm

      جی نہیں یہ صرف ضلع راولپنڈی کی حدود میں نافذالعمل ہے۔

      REPLY
  • Yasmin
    October 17, 2025, 12:00 pm

    Agree 💯

    REPLY

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author