Author Editor Hum Daise View all posts
انیسہ کنول
بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے ہوئے کئی پاکستانی نوجوانوں کی منزل یورپ ہوتی ہےدنیا بھر میں روزگار کی تلاش ایک عام بات ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے نوجوان بہتر مستقبل کے خواب میں دیگر ممالک کا رخ کرتے ہیں پاکستان میں بھی بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے ہزاروں لوگ ہر سال قانونی یا غیر قانونی راستوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے بہت سے لوگ راستے میں انسانی اسمگلروں یا دہشت گردوں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن ان کا راستہ اکثر قبرستان کی طرف مڑ جاتا ہے۔ ہر سال درجنوں نوجوان غیر قانونی طور پر ایران، ترکی اور دیگر راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ لاپتہ ہو جاتے ہیں اور کچھ دہشت گردوں یا انسانی اسمگلروں کا نشانہ بن کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یہ افراد قانونی دستاویزات کے بغیر سفر کرتے ہیں، اور جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو ایران جیسے ممالک یہ کہہ کر ذمہ داری سے انکار کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ غیر قانونی طور پر ان کے ملک میں داخل ہوئے تھے-ان غیر قانونی سفروں میں کئی افراد لاپتہ ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں نہ کوئی اطلاع ملتی ہے، نہ لاشیں واپس آتی ہیں۔ ان کے گھر والے برسوں ان کی خبر کے منتظر رہتے ہیں۔ کچھ کے والدین یا بیویاں مہینوں سرکاری دفاتر اور سفارت خانوں کے چکر لگاتے ہیں، مگر ان کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔
ایسے ہی 17 اپریل کی ایک صبح ایران کے صوبہ سیستان میں دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے 8 افراد پاکستان نے وصول کیے اور ان کے لواحقین کے حوالے کیے جن میں سے دو افراد کا تعلق احمدپورشرقیہ سے تھا جب ملک جمشید اور خالد جھولن کی ڈیڈ باڈیز انکے آبائی شہر احمدپورشرقیہ میں انکے لواحقین کے حوالے کر دی گئیں ییں اور جیسے ہی ڈیڈ باڈیز احمدپورشرقیہ پہنچی تو علاقے میں کہرام مچ گیا علاقے کی ہر آنکھ اشکبار جبکہ فضا سوگوار تھی اور باقیوں کا تعلق بھی مسافر خانہ اور بہاولپور سے تھا جب ان کے لواحقین کو دیکھا تو سب ہی حالات کے مارے تھے-معززین علاقہ کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات میں حکومتِ پاکستان کے کردار پر سوال اٹھتے ہیں۔ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے آواز بلند کرے؟ لاپتہ افراد کی تلاش، لاشوں کی شناخت، لواحقین کی مدد، اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو فوری طور پر کیے جانے چاہئیں۔ایک اور اہم پہلو آگاہی کی کمی ہے۔ اکثر نوجوان اس خطرناک سفر کے نقصانات سے ناواقف ہوتے ہیں ان کے لیے سنہرے خوابوں کا ایک سمندر ہوتا ہے جس میں ان کی اور ان خاندان کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے-اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے کہ کوئی بھی نوجوان اپنا وطن چھوڑ کر غیر قانونی اور خطرناک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہو ان گروہوں اور افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور لوگوں کو غیر قانونی راستوں سے باہر بھیجتے ہیں جب تک ملک میں روزگار کے مواقع نہیں بڑھتے، غیر قانونی ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، اور ہر چند ماہ بعد کوئی نئی لاش، کوئی نیا غم، اور ایک اور امید ٹوٹتی رہے گی
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *