Author HumDaise View all posts
تبصرہ:نصرت عتیق گورکھپوری۔ بھارت
اردو غزل کا معیارِ سخن کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سر زمینِ پاک و ہند نے نابغہِ روزگار سخن ور پیدا کیے ہیں۔ موجودہ عہد ادب میں جہاں غیر معیاری اور سخن طرازی سے ناواقف میدان میں اتر کر ادب کی چاشنی کو زہر آلُود کر رہے ہیں وہیں پر کبھی کبھی ایسے لوگوں کے بارے میں جان یا پڑھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے کہ ابھی ایسے ادب نواز اور شاعرانہ اوصاف کے حامل افراد بھی موجود ہیں جو علم و ادب کا سرمایہ ہیں۔ جناب نقیب صاحب کو غزل کےحوالے سے جب پہلی بار سنا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جن کی شاعری زندگی کی اعلی اقدار کی حقیقی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ ۔ نقیب صاحب کا وصف یہ کہ ہر تجربہ زیست کو نظم کرتے ییں اور حروف سے ایسی منفرد تصویر بناتے ہیں جو قاری کی سوچ و فکر کو یوں اپنے حصار میں لیتی ہے جس سے باہر نکلنا نامکن ہو جاتا ہے۔ یہ جادوگری نہیں تو اور کیا ہے؟ اردو غزل ایک نشہ ہے جو کبھی اترتا نہیں۔ بلکہ اپنی زہنی تموج کے سبب زمانہ کو بہت کچھ دے جاتا ہے۔۔۔انسان کتنا پڑھا لکھا ہے یہ معنی نہیں رکھتا، بلکہ بات معنی رکھتی ہے کہ معاشرہ میں اسکی کیا معاونت ہے اور اگر یہ معاونت پورے معاشرہ کے لئے مفید ہو تو وہ شخص سے شخصیت کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ ۔۔۔مجھے خوشی اس بات کی ہے عارف پرویز نقیب صاحب کی اتنی معیاری شاعری سے میں مستفید ہوئ ۔۔۔۔ پاکستان کے معروف صحافی آرتھر برکی آرتھر نے کیا خوب لکھا ہے کہ ” عارف پرویز نقیب کو اگر بغور پڑھا جاۓ تو سینے میں دل کی بجاۓ ان کے اشعار دھڑکنے لگتے ہیں ‘میں بھارت میں بیٹھ کر ان کی ذاتی زندگی سے تقریباً ناواقف تھی مگر ہمیں عہدِ جدید کی ان سہولیات کا ممنون ہونا چاہیے جن کے سبب ہم اکثر ایک دوسرے سے گویا بالمشافہ بات کرتے ہیں۔ آج کے مردانہ معاشرے میں جہاں عورت کو محض عورت سمجھ کر بات کی جاتی ہے عارف نقیب رشتوں کی دیوار پہلے تعمیر کرتے ہیں۔ میں نے ان کو انتہاٸی بلند کردار شخصیت کے روپ میں پایا جو ادبی تعلق کے ساتھ رشتوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔بطورِ انسان اور ایک ادبی شخصیت کے وہ دوسروں کو متاثر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یوں تو ان کا تماتر کلام ہی متاثر کن ہے جسے یہاں بیان کرنا ناممکن ہے لیکن مندرجہ ذیل اشعار سے ان کے ادبی قد کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔
میں تو تم کو دیکھ کے زندہ رہتا ہوں
میری آنکھیں دوز کما کر کھاتی ہیں۔
درج بالا شعر کا حسن ملاحظہ فرمایے جو اندر کی تمامتر خواہشات کا ترجمان ہے۔جسے لفظوں میں پرونا آسان نہ تھا
کھڑا تھا دشت میں احرام عشق باندھ کے میں۔
تو کیوں یہ تیری شریعت مرے خلاف اٹھی۔
اس شعر پر جتنی بھی گفتگو کر لی جاۓ کم پڑے گی۔۔ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں صداقتوں کو مصلوب کر دیا جاتا ہے۔۔ ایسے عہدِ میں ایسے اشعار کہنا کسی صاحب طرز کا کارنامہ ہی ہو سکتا ہے۔
زمیں سن تھی فلک چپ تھا تو کس سے التجا کرتے
بہت بےچارگی میں تھے بچھڑنے سے زرا پہلے۔
اب اس شعر کو دیکھے کہ اس میں ایک ایسا نفسیاتی خدشہ موجود ہے جو منزل کے قریب پہنچ کر جنم لیتا ہے۔
اس گلی سے اس گلی تک کٹ گئ عمر رواں۔
عمر بھر ہم یجرتوں کے درمیاں مارے گئے۔
درجِ بالا شعر داخلی تصور کا ایک شاہکار ہے جسے جیسے جیسے پڑھتے جاٸیں تخیل کی جولانیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں
گماں نہیں تھا کہ اس کو بھی ٹوٹ جانا ہے
کہ جسکو ٹوٹ کے چاہا تو چاہ کر ٹوٹے۔
اس قدر معیاری شعر میں رومانونیت کے پیراۓ میں ایک ایسے درد کی کیفیت موجود ہے جو احساس اور خلوص کی مثال ہے جس میں اپنا غم بھلا کر دوسروں کے درد کو محسوس کیا جاتا ہے۔
یہ غم دنیا ہے مانا اک مسلسل تیرگی۔
جو چراغ رہ بنے جلتا رہے کوٸی تو ہو۔
عارف نقیب کے ہاں شاعری کرنا گویا اس فن لطیف کو ارتقا دینا ہی مقصود نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی راہ استوار کرنا بھی شامل ہے۔۔ جہاں انسانیت اپنے معراج پر ہوتی ہے۔
بھوک آنتوں میں قید ہو بیٹھی
جس کو کوئ غذا نہ کھولےگی۔
موجودہ عہدِ ستم میں مفلسی اور بے چارگی کی کیفیت کو اس سے بہتر انداز میں پیش کرنا عارف نقیب کا وصف ہو سکتا ہے۔
نہ بانس باندھہ کے ٹانگوں سے قد بڑھا اپنا
ہے گر بساط تو لا قد مرے برابر کا۔
آج کے دور میں جہاں ہر شخص بناوٹی اور مصنوعی جاہ و تمکنت لیے پھرتا ہے عارف نقیب صاحب نے ان پر اس خوبصورتی سے تازہٕانہ کسا ہے کہ عش عش کیے بغیر چارہ نہیں۔
علاوہ ازیں ان کے مجموعہِ کلام “حرفِ لامکاں” سے چند اور اشعار آپ کی بصارتوں کی نذر،
امیرِ شہر نے اب کے سروں کی فصل کاٹی ہے
تمہیں کیسا لگا موسم نجانے تم پہ کیا گزری۔
یہ سب دعاٸیں ریاضتیں تو امیدِ وصلِ بہار تک تھیں
یہ میری آنکھوں کے خالی کاسے عبادتوں کی شکست کے ہیں۔
اپنے قد سے بڑھ کے کچھ مل جاۓ تو
اپنی حد میں رہنا مشکل ہوتا ہے
سنے ہیں شہر میں چرچے تری عبادت کے
مجھے بھی ہونٹوں پہ رکھ لے کسی دعا کی طرح۔
میں اپنے دور کا موسیٰ ہوں دشتِ غربت میں
اب آسماں سے مجھے بھی کوٸی غذا آۓ
لکھا ہے تونے مرا نام کیوں ہتھیلی پر۔
زمین و عرش ملانے کی ضد نہیں کرتے۔
عارف نقیب کے اشعار میں زندگی کی نغمگی ہے ۔۔ ریشم کے دھاگوس میں انگاروں کو باندھنےکا ہنر وہ ہی جانتے ہیں ہے اور یہ ایسا ہنر ہے جس میں کوئ تصنع کوئ بناوٹ نہیں۔ ۔ جو بات دل پہ گزری وہی اشعار میں سمٹ کر آ گئ یہ شاعری نہیں قلندری ہے اس عہدِ ناثبات اور حبس زدہ ماحول میں عارف نقیب صاحب کی ادبی حیثیت کسی مینارہِ نور سے کم نہیں جنکی فکر سے ادبی فضا اور بھی خوشگوار اور روشن ہوتی نظر آتی ہے۔ ۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *