Author Editor Hum Daise View all posts
وقاص قمر بھٹی
انسانی معاشرے کی معراج تب ہی ممکن ہے جب اس کے ہر فرد کو عزت، برابری، اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں، بصورتِ دیگر وہ معاشرہ بےحسی کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں فراد باہم معذوری(Persons with Disabilities) ایک ایسا حساس طبقہ ہیں، جو اپنی جسمانی یا ذہنی مجبوریوں کے باوجود مکمل انسان ہیں، مکمل شہری ہیں، اور مساوی حیثیت کے حامل ہیں
قانونی و آئینی تناظر
آئینِ پاکستان 1973 کی متعدد شقیں انسانی برابری اور سماجی تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ آرٹیکل 25 ہر شہری کو قانون کے تحت مساوی حیثیت دیتا ہے، جب کہ آرٹیکل 38(d) ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو سماجی تحفظ دے جو عمر، معذوری یا بیماری کے سبب کام نہیں کر سکتے۔ آرٹیکل 37(b) ریاست کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ خصوصی تعلیم کو فروغ دے، تاکہ خاص ضروریات کے حامل افراد بھی تعلیمی نظام میں شامل ہو سکیں۔
پاکستان نے 5 جولائی 2011 کو اقوامِ متحدہ کے “Convention on the Rights of Persons with Disabilities (CRPD)” پر دستخط کیے، اور باقاعدہ طور پر اس کی توثیق بھی کی۔ اس معاہدے کے تحت ریاست معذور افراد کے لیے معیاری تعلیم، آزادیِ نقل و حرکت، روزگار، صحت کی سہولیات اور سماجی شرکت کی ضامن ہے۔ CRPD کی شق 24 خاص طور پر تعلیم کے حق کی وضاحت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ معذور افراد کو عام تعلیمی نظام میں، بلا تفریق، مساوی بنیادوں پر شامل کیا جائے۔
علاوہ ازیں، سال 2020 میں Islamabad Capital Territory Rights of Persons with Disabilities Act نافذ کیا گیا۔ یہ قانون دارالحکومت کے دائرہ کار میں آنے والے تمام اداروں پر لازم کرتا ہے کہ وہ ان افراد کے لیے داخلے، ملازمت، نقل و حرکت، طبی سہولیات، اور سماجی شناخت کے حقوق کی مکمل ضمانت دیں۔ اسی قانون کی روشنی میں CRPD کمیشن بھی کام کر رہا ہے ۔
تعلیم: خواب، رکاوٹ، اور امید
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر خصوصی بچوں کے لیے یہ ایک مشکل سفر ہے۔ پاکستان میں ہزاروں بچے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہیں۔ زیادہ تر اسکول نہ تو ریمپ رکھتے ہیں، نہ ہی خصوصی اساتذہ، اور نہ ہی بریل، اشاروں کی زبان یا دیگر معاون تدابیر۔
خصوصی تعلیمی اداروں کی تعداد محدود اور زیادہ تر شہری مراکز تک محدود ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں ایک سپیشل بچہ اکثر گھر کے ایک کونے میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ ایسے میں آن لائن تعلیم، ٹیلی سکول، اور معذور طلبہ کے لیے مختص نصاب ایک امید کی کرن بن سکتے ہیں۔
روزگار، خودمختاری اور معاشی شمولیت
معاشی خودمختاری کسی بھی شہری کے وقار کا مظہر ہے۔ پاکستان میں بعض صوبوں نے افراد باہم معذوری کے لیے ملازمت کا 2 فیصد کوٹہ مقرر کیا ہے، جبکہ کچھ مقامات پر یہ 3 فیصد ہے۔ تاہم، اس پر عملدرآمد میں ابہام، لاپروائی اور رویے کی سطح پر تعصب موجود ہے۔ افراد باہم معذوری کو صرف خیرات کا مستحق سمجھنے کی بجائے، انہیں فنی مہارتیں، چھوٹے کاروبار، اور خود روزگاری کے لیے قرضوں تک رسائی فراہم کرنا ہوگی۔
معاشرتی رکاوٹیں اور رسائی کا بحران
معاشرے میں افراد باہم معذوری کو سب سے زیادہ تکلیف دہ رکاوٹ رویوں کی شکل میں درپیش ہے۔ ترس، مذاق، یا غیرضروری ہمدردی – یہ سب معذور فرد کی خودی کو مجروح کرتے ہیں۔ دفاتر، عدالتوں، اسپتالوں اور پبلک مقامات پر جسمانی رسائی آج بھی ایک خواب ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے ہسپتالوں میں وہیل چیئر داخلے کا راستہ بھی موجود نہیں۔
سفارشات: اصلاح و عمل کے زاویے
تمام تعلیمی اداروں میں “انکلوژن ماڈل” رائج کیا جائے، تاکہ خصوصی بچے عام بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔
اساتذہ کی تربیت میں خصوصی تعلیم، اشاروں کی زبان، اور بریل کو شامل کیا جائے۔
پبلک انفراسٹرکچر میں معذور افراد کے لیے ریمپ، مخصوص پارکنگ، اور بیت الخلاء کو لازمی قرار دیا جائے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر افراد کے لیے الگ سروس لائنز، ہیلپ ڈیسک اور شکایت کے تیز نظام تشکیل دیے جائیں۔
ہر ضلع میں “ڈس ایبلیٹی اسسٹنس سینٹر” قائم کیے جائیں جہاں معذور شہری تعلیم، شناختی دستاویزات، صحت اور ملازمت کے لیے ایک چھت تلے رہنمائی لے سکیں۔
میڈیا میں باعزت نمائندگی اور معذور کامیاب شخصیات کی حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ معاشرے میں رویے بدلیں۔
معذور افراد نہ کمزور ہیں، نہ محتاج۔ وہ بھی اسی دھرتی کے بیٹے بیٹیاں ہیں، جو مواقع ملنے پر تاریخ بدلنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان کی زندگیوں کو ایک ہمدرد نظر سے نہیں، بلکہ ایک مساوی فرد کی حیثیت سے دیکھیں۔ آئین نے جو وعدہ کیا ہے، ریاست نے جو قانون بنایا ہے، اور جو معاشرہ مہذب کہلانا چاہتا ہے، اسے ان وعدوں کو عمل میں ڈھالنا ہوگا۔ تب جا کے ہم کہہ سکیں گے کہ ہمارا معاشرہ واقعی مکمل ہے اور ہمیں بھی چاہیے حکومت کے ساتھ ساتھ اپنی بھی ذمہ داری نبھائیں کہ ان افراد کی جگہ پر ہم ان کو سپیشل پرسن کا نام دیں اور لکھا اور پکارا جائے یہ ہمارا خلاقی حق ہے ۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *