Author Editor Hum Daise View all posts
سموئیل بشیر
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں حالیہ دنوں ایک المناک واقعہ پیش آیا جس نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک نوجوان جوڑے نے اپنی مرضی سے شادی کی، لیکن ان کے اپنے ہی قبیلے کے افراد نے انہیں گولی مار کر قتل کر دیا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑے غیرت کے نام پر قتل، لاقانونیت، قبائلی اثر و رسوخ اور ریاستی خاموشی کو بے نقاب کر دیا ہے- پاکستان کا آئین ہر شہری کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے-
آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کے مطابق ہر شخص کو زندگی اور آزادی کا حق حاصل ہے- آرٹیکل 35 کہتا ہے کہ ریاست خاندان، ماں، بچے اور شادی کے ادارے کا تحفظ کرے گی۔ آرٹیکل 25 کے مطابق ملک میں تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں۔ان آرٹیکلز کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ کوئی بھی بالغ فرد اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آئینی ضمانتوں کے باوجود کیا یہ حق عملاً محفوظ ہے؟ پاکستان میں ہر سال درجنوں لڑکیاں اور لڑکے صرف اس وجہ سے مار دیے جاتے ہیں کہ انہوں نے خاندانی یا قبائلی مرضی کے خلاف شادی کی۔ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق “غیرت کے نام پر قتل” انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے، جسے ثقافتی روایت کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے-اس واقعے میں بھی قاتل دن دہاڑے آتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور اکثر بغیر کسی مزاحمت کے فرار ہو جاتے ہیں۔ نہ پولیس متحرک ہوتی ہے، نہ کوئی جرات مند سرکاری افسر سامنے آتا ہے-
اس واقعے میں بھی قاتل دن دہاڑے آتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور اکثر بغیر کسی مزاحمت کے فرار ہو جاتے ہیں۔ نہ پولیس متحرک ہوتی ہے، نہ کوئی جرات مند سرکاری افسر سامنے آتا ہے- جہ صاف ہےقبائلی نظام میں طاقتور افراد قانون سے بالا تر ہو چکے ہیں- پولیس مقامی دباؤ اور سیاسی مداخلت کا شکار ہے۔
مقدمات کی پیروی کمزور، شہادتیں غائب اور فیصلے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں-
پاکستان اقوام متحدہ کے عالمی انسانی حقوق چارٹر (خواتین کے خلاف امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ) کا دستخط کنندہ ہے۔ ان عالمی قوانین کے تحت ریاست پر لازم ہے کہ وہ؛
ہر فرد کو ذاتی فیصلوں کی آزادی دے۔
غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کرے۔
مگر عملی طور پر یہ معاہدے فائلوں تک محدود ہیں۔
خصوصی عدالتیں: غیرت کے نام پر قتل کے کیسز کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹس قائم کی جائیں- قبائلی اثر کے خاتمے کی پالیسی: ریاست کو چاہیے کہ مقامی جرگہ سسٹم کو قانون کے تابع کرے۔پولیس ریفارمز: پولیس کو بااختیار اور غیرسیاسی بنایا جائے تاکہ وہ دباؤ کے بغیر کارروائی کر سکے- نوجوانوں، والدین اور برادریوں میں آگاہی مہم شروع کی جائے کہ غیرت کے نام پر قتل “عزت” نہیں، جرم ہے- کوئٹہ کا یہ واقعہ صرف ایک جوڑے کے قتل کی کہانی نہیں، یہ ہمارے سماج کی اجتماعی بے حسی، ریاستی ناکامی اور قانون کے مذاق کی علامت بن چکا ہے۔ جب تک قاتل کھلے عام گھومتے رہیں گے، کوئی بھی نوجوان محفوظ نہیں ہو گا۔ اب وقت ہے کہ ریاست، عدلیہ، سول سوسائٹی اور میڈیا مل کر آواز بلند کریں — ورنہ اگلا نشانہ کوئی اور بے گناہ ہوگا۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *