مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


انٹرفیتھ :طاقت کی سیاست‘‘ سے ’’انصاف کی سیاست تک ممکنات!

انٹرفیتھ :طاقت کی سیاست‘‘ سے ’’انصاف کی سیاست تک ممکنات!

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

خالد شہزاد
پاکستان میں ’’انٹرفیتھ ڈائیلاگ‘‘ کا تصور ہر بڑے سانحہ کے بعد دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔ فوٹو سیشنز، امن کانفرنسیں اور وقتی امداد کے اعلانات اس سوچ کی علامت ہیں کہ انٹرفیتھ کا مطلب صرف ’’ڈیمیج کنٹرول‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا انٹرفیتھ کو طاقت کی سیاست سے انصاف کی سیاست بنایا جا سکتا ہے؟
طاقت کی سیاست اور انٹرفیتھ کا موجودہ ڈھانچ
پاکستان میں انٹرفیتھ ڈائیلاگ کی موجودہ شکل ریاست اور اکثریتی طبقے کے زیرِ اثر ہے۔
کسی چرچ یا مندر پر حملہ ہوتا ہے،
کسی مسیحی یا ہندو پر جھوٹا الزام لگتا ہے،
یا کسی کم عمر بچی کو اغوا کر کے مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے،
… تو فوراً ’’امن کانفرنس‘‘ بلائی جاتی ہے۔ چند لاکھ روپے کے چیک تقسیم ہوتے ہیں، اور ’’امن و بھائی چارے‘‘ کے بیانات کے بعد کیس میڈیا کی سرخیوں سے غائب ہو جاتا ہے۔
یہ طاقت کی سیاست ہے — جہاں اقلیتوں کو شریک تو بنایا جاتا ہے لیکن فیصلہ سازی میں کردار نہیں دیا جاتا۔
انصاف کی سیاست کیا ہے؟
انصاف کی سیاست کا مطلب یہ ہے کہ:
انٹرفیتھ محض ’’تصویری نمائندگی‘‘ نہ ہو، بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہو جو ریاست اور اداروں کو جوابدہ بنائے۔
صرف ’’امن کی اپیل‘‘ نہ کی جائے بلکہ اصلاحات کا ایجنڈا پیش کیا جائے۔
انصاف کی سیاست میں یہ سوال اٹھانے ہوں گے:
کیا آئین کے آرٹیکلز 20، 25 اور 36 پر مکمل عملدرآمد ہو رہا ہے؟
کیا پولیس اور عدلیہ اقلیتوں کے کیسز میں غیرجانبدار رویہ رکھتی ہیں؟
کیا نفرت انگیز نصاب اور خطبات کا سدباب کیا گیا ہے؟
کیا انٹرفیتھ صرف اقلیتوں کے لیے ہے؟
پاکستان میں انٹرفیتھ ڈائیلاگ کا زیادہ تر دباؤ اقلیتوں پر ہے — انہیں کہا جاتا ہے کہ:
“برداشت کریں، امن کا پیغام دیں، اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خاموش رہیں۔”
جبکہ اصل ضرورت اکثریتی طبقے کو ہے تاکہ وہ:
اپنی مذہبی اجارہ داری اور طاقت کے عدم توازن کو سمجھ سکیں،
نصاب اور پالیسی میں برداشت اور مساوات کی اقدار کو فروغ دے سکیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں انٹرفیتھ کا مقصد ’’ثقافتی تبادلہ‘‘ ہے کیونکہ وہاں قانون سب کے لیے برابر ہے۔
لیکن پاکستان میں انٹرفیتھ کا مطلب زیادہ تر ’’سانحہ کے بعد ملاقات اور امداد‘‘ ہے — اصل اصلاحات پر کوئی بات نہیں ہوتی۔
حالیہ واقعات: انٹرفیتھ کے یکطرفہ ہونے کی علامت
پیٹر پال کیس (لاہور): ایک ذہنی مریض مسیحی شخص پر 295-C کے تحت مقدمہ درج ہوا اور گرفتاری عمل میں آئی۔
ثمریز کیس (سرگودھا): کم عمر مسیحی لڑکے کو اغوا کر کے لاہور کی عدالت سے ’’مرضی کا بیان‘‘ دلوایا گیا۔
یہ دونوں واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ انٹرفیتھ کے نام پر فوٹو سیشن ہوتے ہیں مگر ریاستی ادارے یا تو ملوث ہوتے ہیں یا خاموش۔
پالیسی سازی میں اقلیتوں کی شمولیت کی تجاویز
انٹرفیتھ کمیشن کو ’’آزاد ریفارم باڈی‘‘ بنایا جائے
یہ کمیشن صرف ’’امن کانفرنس‘‘ تک محدود نہ رہے بلکہ پارلیمنٹ کو سالانہ رپورٹ دے اور ریاستی اداروں سے سوال کر سکے۔
اقلیتی نمائندگی ’’نامزدگی‘‘ کے بجائے ’’انتخاب‘‘ سے ہو
موجودہ Selection System اقلیتوں کی سیاسی طاقت کو ختم کر چکا ہے۔
Joint Electorate سسٹم ختم کرکے اقلیتوں کے لیے Reserved Seats پر حلقہ بندیوں کے ساتھ براہِ راست ووٹنگ کا حق دیا جائے تاکہ نمائندے کمیونٹی کے منتخب کردہ ہوں، پارٹی لیڈروں کے چُنے ہوئے نہیں۔
پالیسی سازی میں اقلیتی کوٹہ لازمی ہو
کابینہ، وزارتِ تعلیم، وزارتِ مذہبی امور اور نصاب کمیٹیوں میں اقلیتی ممبران کو فیصلہ کن ووٹ دیا جائے۔
نفرت انگیز مواد اور نصاب کا مؤثر جائزہ
انٹرفیتھ کمیشن کو اختیار ہو کہ وہ نصاب یا میڈیا میں نفرت انگیز مواد کی نشاندہی کرے اور عملدرآمد کرائے۔
اقلیتی وکلاء، صحافیوں اور دانشوروں کی ’’پالیسی فورم‘‘ میں شمولیت
انٹرفیتھ صرف مذہبی پیشواؤں تک محدود نہ رہے بلکہ سول سوسائٹی، تعلیمی ادارے اور میڈیا بھی شامل ہوں۔
Selection System کا خاتمہ کیوں ضروری ہے؟
2002 کے صدارتی آرڈر کے بعد اقلیتی نشستوں پر Selection System نافذ کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ:
اقلیتیں اپنے نمائندے کو ووٹ سے خود نہیں چنتیں۔
سیاسی جماعتیں اپنی مرضی کے ’’وفادار‘‘ نامزد کرتی ہیں، جو کمیونٹی کے لیے جوابدہ نہیں۔
اقلیتی نمائندے پارٹی باس کے آگے جوابدہ ہیں، نہ کہ کمیونٹی کے۔
انٹرفیتھ کے نام پر رائٹنگ ٹیبل سیاست ہوتی ہے، حقیقی نمائندگی نہیں۔
Selection System ختم کر کے اقلیتوں کو Reserved Seats پر براہِ راست ووٹنگ کا حق دیا جائے — جیسے پاکستان کے ہر شہری اپنے MNA کے لیے ووٹ ڈالتا ہے، اقلیتیں بھی اپنی مخصوص نشست کے امیدوار کو ووٹ دیں۔
جب تک انٹرفیتھ ڈائیلاگ صرف طاقت کو خوش کرنے کے لیے ہوگا، یہ ’’امن کی وقتی ڈیل‘‘ تو دے سکتا ہے لیکن انصاف کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
انٹرفیتھ کو طاقت کی سیاست سے انصاف کی سیاست میں بدلنا ہوگا — یعنی:
اقلیتوں کو پالیسی سازی میں اصل اختیار دینا،
Selection System ختم کر کے براہِ راست نمائندگی دینا،
اور نفرت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اصلاحات پر مبنی قومی منصوبہ بنانا۔
جب تک یہ نہیں ہوگا، انٹرفیتھ ہمیشہ ’’سانحوں کے بعد کی مرہم پٹی‘‘ ہی رہے گا — نہ کہ حقیقی مساوات اور انصاف کا راستہ۔

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author