مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


جرگوں کے فیصلے اور قانون کی عملداری پر سوالیہ نشان !

جرگوں کے فیصلے اور قانون کی عملداری پر سوالیہ نشان !

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

سموئیل بشیر

پاکستان کا آئین ہر شہری کو مساوی حقوق، تحفظ اور منصفانہ سماعت کا حق دیتا ہے۔ لیکن زمینی حقیقت کچھ اور کہانی سناتی ہے—جہاں انصاف کا دروازہ عدالت کی بجائے قبیلے کے جرگے، پنچایت یا خاندانی غیرت کے سامنے کھلتا ہے۔ بلوچستان اور راولپنڈی میں حالیہ دو واقعات نے اس تضاد کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے- کوئٹہ کے نواحی علاقے میں ایک نوجوان لڑکی اور لڑکے کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی۔ مقامی سردار نے قبیلہ طلب کیا، جرگہ لگا، اور “خلافِ رسم” اقدام پر موت کا حکم دے دیا گیا۔ پولیس نے لاشیں اٹھائیں، لیکن قانون حرکت میں نہ آیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئین کا آرٹیکل 9 جو ہر فرد کو زندگی کا بنیادی حق دیتا ہے، ان مقتولین پر لاگو نہیں ہوتا تھا؟ یا پھر جرگے کو آئینی ادارہ تسلیم کر لیا گیا ہے؟ راولپنڈی میں حافظۂ قرآن سدرہ کو اس کے اپنے خاندان نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ الزام تھا کہ اس نے کسی سے دوستی رکھی، اور گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے نکاح کیا۔ خاندان کے افراد نے گھر پر ہی جرگہ اکٹھا کیا، لڑکی کو پیش کیا گیا، جرگے نے فیصلہ دیا کہ کیونکہ اس نے پسند کی شادی کی ہے اس لئے اس اب زندہ رہنے کا حق نہیں ہے- یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، لیکن اس بار مذہب، تعلیم اور شریعت کا پس منظر رکھنے والی لڑکی کو بھی معاشرتی ظلم نہ بچا سکا۔ غیرت کے نام پر قتل، جو کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 اور 302 کے تحت جرم ہے، ایک بار پھر خاندانی “عزت” کے سائے میں دفن کر دیا گیا ہے-
مگر ان دفعات کا اطلاق صرف عدالتوں تک محدود ہے۔ گاؤں، دیہات یا قبیلوں میں ان کی حیثیت ایک کاغذی خواب سے زیادہ کچھ نہیں- ان واقعات کے بعد پولیس حرکت میں تو آئی ہے۔ ایف آئی آربھی درج ہوئی، گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس ملزمان کے خلاف مضبوط کیس بناتی ہے یا پھر کمزور شواہد اور عدم گواہان کو بنیاد بنا کر عدالتیں بااثر سرداروں، وڈیروں اور خاندانوں کے سامنے خاموش رہتی ہے۔ یہ خاموشی محض خوف نہیں، بلکہ قانون کی عملداری کے ایک چیلنج ہے- حکومت کو چاہیے کہ جرگوں اور پنچایتوں کے فیصلوں پر سخت قانونی پابندی لگائی جائے، اور ان میں ملوث افراد پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی جائیں- عدلیہ اور سول سوسائٹی کو ایسے معاملات میں ازخود نوٹس اور قانونی مداخلت کرنی چاہیے- متاثرہ خاندانوں کو ریاست کی طرف سے قانونی معاونت اور تحفظ فراہم کیا جائے-جب انصاف جرگوں میں بانٹا جائے، اور غیرت کی تلوار قانون سے زیادہ طاقتور ہو جائے، تو آئین، عدالتیں اور پولیس محض نمائشی ادارے بن کر رہ جاتے ہیں۔ بلوچستان اور راولپنڈی کے واقعات ہماری اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ریاست دوٹوک فیصلہ کرے- کیا ہم آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں یا روایات کی غلامی؟

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author