Author Editor Hum Daise View all posts
لعذر اللہ رکھا ایڈووکیٹ
شاگردوں سے مذھب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے والے اساتذہ کو سرکاری سکولوں سے فارغ کیا جاۓ استاد کا کام بچوں کو پڑھانا ھے ۔ نابالغ بچوں کا مذھب تبدیل کروانا نہیں ۔ بچے استاد کے زیر اثر ھوتے ھیں اگر کوئی استاد روزانہ کی بنیاد پر کم عمر بچوں کے مذھب کی حقارت کرے گا اور بچوں کی ذھن سازی کرے گا تو معصوم بچے تعصب کا بوجھ زیادہ دیر برداشت نہیں کر پاتے یا تو وہ سکول چھوڑ جاتے ھیں یا پھر استاد کی آفر قبول کر لیتے ھیں غربت کے مارے ھوے بچوں کو والدین سے چھین کر کسی مذھب کی خدمت نہیں ھوتی ماؤں کی سسکیوں اور چیخیں آسمان پھاڑ دیتی ھیں لیکن کس قدر بے حسی ھے کہ کوئی آواز ھی نہیں اٹھاتا کسی عدالت کو ان مجبور و محکوم والدین کے آنسو نظر نہیں آتے ان کی حالت پر ترس نہیں آتا۔سندھ مذھبی رواداری اور صوفیاء کی دھرتی ھوا کرتی تھی امن سکون ھوا کرتا تھا گزشتہ دن کم عمر ایک ھی خاندان کی تین کم عمر بچیوں کی اپنے ھی استاد کے ھاتھوں تبدیلی مذھب کے واقعہ نے مقامی ھندو برادری کو خوف میں مبتلا کر دیا ھے رنکل کماری سے لیکر گزشتہ روز تک ایسے واقعات تواتر کے ساتھ ھو رھے ھیں جو رکنے کا نام ھی نہیں لے رھے ایسے میں صاحب حثیت ھندوؤں کے لیے ھجرت کے علاؤہ کو آپشن نہیں بچتا باقی جو غریب مسکین ھندو بچیں گے وہ دعائیں کریں گے کہ ان کے گھر بیٹیاں پیدا ھی نہ ھوں تو اچھا ھے، ھندو برادری میں کم عمر بچیوں کی شادیوں کی ایک بڑی وجہ یہی خوف ھے لوگ اپنی عزت بچانے کے لیے اپنی بچیوں کو جلد بیاہ دیتے ھیں کہ اگر خدا نخواستہ کسی خوش شکل لڑکی پر کسی ظالم وڈیرے یا زمیندار کی نظر پر گئی تو لڑکی نہیں یا پھر خاندان نہیں ۔اور کوئی مداوا نہیں کوئی انصاف کا کٹہرا نہیں ۔مایوسی ھے جو بڑھتی جارھی ھے خوف کے ساۓ ھیں جو گہرے ھوتے جارھے ھیں۔ دستور میں کسی صاحب فراست نے لکھ دیا کہ ریاست میں تمام شہری برابر حثیت کے حامل ھونگے اور ھم جیسے خوش فہموں نے خواب سجا لیے آنکھیں کھلیں تو ماجرا ھی یکسر مختلف نکلا۔ سندھ دھرتی پر صدیوں سے آباد ھندو بھی دھرتی کے اصلی وارث ھیں ان کی بچیاں بھی پاکستان کی بیٹیاں ھیں خدا راہ سندھ واسیوں سندھ دھرتی کو لٹنے سے بچا لو، ان سے کہہ دو تیرہ چودہ سال کی بچی ھے چند سال انتظار کرلو جب سوچنے سمجھنے اور اپنے فیصلے کرنے کے قابل ھو جائے کر لینا اپنے سارے شوق پورے تب تک ان پر رحم کریں۔ پہلے وڈیرے اور زمینداروں کے لیے “لٹ کا مال” تھیں اب استاد بھی شامل ہوگئے ھیں۔
کوئی چارہ گر ھو تو بتائے ۔
غریب جاۓ تو کدھر جائے
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *