مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


وزیر اعلی مریم نواز کاویژن اور خواجہ سراؤں کی بدلتی پہچان

وزیر اعلی مریم نواز کاویژن اور خواجہ سراؤں کی بدلتی پہچان

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

نورالعین
خواجہ سراجو ہمارے معاشرے میں تیسری جنس یا غیر بائنری طبقے کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنوبی ایشیائی ثقافت کا ایک قدیم حصہ ہیں۔ ماضی میں انہیں بادشاہوں کے درباروں میں موسیقی اور رقص میں نمایاں مقام حاصل تھا۔خصوصی طورپر یہ بادشاہوں کے حرم سراؤں میں بطور پہرے دار بھی متعین کئے جاتے تھے ۔ اُسی زمانے میں انہیں خواجہ سرا کہا جانے لگا تھا ۔ تاہم وقت کے ساتھ ان کا سماجی مقام کمزور ہوا اور انہیں نفرت، تضحیک اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ آج یہ طبقہ شدید سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہے۔دُنیا بھر میں خواجہ سراؤں کو معاشرے کا ایک کار آمد حصہ بنانے پر زور دیا جا رہا ہے اور اُن کے لئے بے شمار ویلفئیر اور کمیونٹی پرو گرامز شروع کئے جا رہے ہیں ۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کو روزمرہ کی زندگی میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشرتی قبولیت ہے۔ زیادہ تر خواجہ سرا اپنے خاندانوں سے نکال دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ ایسے خاندان معاشرے میں رہنے والے افراد کے طعنے برداشت نہیں کر سکتا۔ گھر سے بے گھر ہو کر انہیں پناہ کے لیے گرو سسٹم یا دیگر خواجہ سراؤں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ اور کئی ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جنہیں معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا ۔ ان خواجہ سراؤں کی تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی محدود ہے، اور باعزت روزگار کے مواقع تقریباً ناپید ہیں۔کیونکہ بہت ہی محدود پیمانے پر خواجہ سراؤں کو ملازمت کے مواقع دینے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجبوراً خواجہ سرا زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے بھیک مانگنے، ناچنے یا جسم فروشی جیسے پیشوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ مزید ستم یہ کہ ان کے ساتھ ہراسانی، جنسی تشدد اور دیگر مظالم عام ہیں، لیکن اکثر واقعات رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ پولیس ان کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی انتہائی مشکل اور محرومیوں سے بھرپور ہے۔ ان کا سب سے بڑا چیلنج ہی اپنی شناخت کا ہے۔ کہ انہیں نارمل انسان ہی نہیں مانا جاتا ۔ لیکن حالیہ برسوں میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہےاگرچہ 2018 میں “خواجہ سرا تحفظ حقوق بل” کے ذریعےانہیں قانونی شناخت دی گئی، جس کے تحت انہیں شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور جائیداد کے حقوق حاصل ہوئے ۔ تاہم عملی سطح پر اس قانون پر مکمل عمل درآمد ایک چیلنج ہی رہا ہے اوراکثر ادارے اور عام لوگ انہیں نہ صرف قبول کرنے سے انکاری ہیں بلکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک بھی روا رکھتے ہیں۔ لیکن اب پہلی بار صوبہ پنجاب میں خواجہ سرا (ٹرانس جینڈر) کمیونٹی کے لیے باعزت اور باوقار زندگی کے مواقع فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ویژن کے تحت اس نظر انداز طبقے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایسےانقلابی اقدامات شروع کیے گئے ہیں، جس کا مقصد انہیں بھیک ، محتاجی اور گناہ کی زندگی سے نکال کر خودمختاری اور باعزت روزگار کی طرف لے جانا ہے۔اور اُنہیں باقاعدہ اُن کی شناخت بھی دینا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ معاشرے کا بے رحمانہ سلوک انتہائی افسوسناک بلکہ شرمناک ہے۔ انہیں صرف نظرانداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ سماجی بائیکاٹ اور روزگار حاصل کرنے میں حوصلہ شکنی کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا گیا اور آج ہر چوک میں بھیک مانگتے خواجہ سراؤں کی لائن لگی نظر آتی ہے ۔ اس مظلوم طبقے کی اسی محرومی کو دور کرنے کے لیے حکومت پنجاب نے ایک جامع حکمت عملی کے تحت انہیں ہنر مند بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور پنجاب اسکلز ڈویلپمنٹ فنڈ کے تحت ” پہچان پرو گرام ” شروع کیا گیا ہے جس کے پہلے مرحلے میں 1600 سے زائد خواجہ سراؤں کو مختلف فنی مہارتوں کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ تربیت نہ صرف ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ان کے اندر اعتماد اور خودداری کا احساس بھی پیدا کرے گی۔بدلتے وقت کے ساتھ اس طبقے نے اپنی خاموشی کو اپنے کامیابی میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے اور اس تبدیلی کی ایک نمایاں مثال سامنے آئی ہے۔ لاہور کی گلیوں میں، جہاں کبھی خواجہ سرا صرف ناچ گانے یا بھیک مانگنے تک محدود سمجھے جاتے تھے، آج وہی چہرے سفید شیف کوٹ میں ملبوس، جدید کچن میں کھڑے، چاقو اور چمچ تھامے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں نے خود کو ثابت کرنے کا عزم کر لیا ہے، اور اس بار ان کا ہتھیار فنِ طعام ہے۔جوہر ٹاؤن کے ایک جدید نجی انسٹیٹیوٹ میں 50 سے زائد ٹرانس جینڈر افراد کوکنگ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر خوداعتمادی، ہاتھوں میں مہارت اور دلوں میں وہ خواب ہیں جو برسوں تک دبے رہے۔ یہ اقدام “پہچان پروگرام” کا حصہ ہے، جو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا ایک انقلابی منصوبہ ہے، جس کا مقصدخواجہ سراؤں کو نہ صرف تسلیم کرنا ہے بلکہ انہیں باعزت، بااختیار اور خودمختار شہری بنانے کی عملی کوشش بھی کرنا ہے۔ٹرانس جینڈرطلباءنہ صرف شوق سے سیکھ رہے ہیں بلکہ ان کے جذبے نے تجربہ کار شیفس کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی کے زخموں کو ہنر کی مرہم سے بھرنا چاہتے ہیں۔ وہ اب اپنی پہچان کو خود تراش رہے ہیں، ایسی پہچان جو صرف نام پر نہیں، بلکہ ہنر، کردار اور عزت کی بنیاد پر ہو گی۔یہ منظر ایک نئی صبح کی نوید ہے، ایک ایسی صبح جہاں معاشرہ ہر فرد کو بلا لحاظ جنس برابر کا درجہ دے۔ اس پرو گرام کی بدولت خواجہ سرا بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا مقام بناسکیں گے۔ یہ تبدیلی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے “پہچان پروگرام” کی بدولت ممکن ہوئی ہے، جو خواجہ سراؤں کو معاشرتی دھارے میں شامل کرنے اور انہیں ہنر مند و خودمختار بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت کوکنگ کے ساتھ ساتھ بیوٹیشن، سلائی کڑھائی، الیکٹریکل ورک، سولر ٹیکنالوجی، آئی ٹی، فری لانسنگ اور دیگر فنی شعبوں میں تربیت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ خواجہ سرا زندگی گزارنے کے لیے بھیک مانگنے یا دوسرے معیوب افعال پر مجبور نہ ہوں بلکہ باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔
یہ اقدامات اس بات کی امید دلاتے ہیں کہ اگر ریاست، سماج اور ادارے خواجہ سراؤں کی حمایت کریں، تو یہ طبقہ بھی باوقار، خوشحال اور مساوی شہری کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ خواجہ سراؤں کو ایک باوقار زندگی فراہم کرنے کے لیے ہمیں بطور معاشرہ سوچنے، سمجھنے اور قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تعلیم، صحت، روزگار اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عوامی شعور بیدار کرنا بھی ضروری ہےاورمیڈیا، تعلیمی اداروں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کو مل کر اس طبقے کو معاشرے کا مساوی فرد بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author