Author Editor Hum Daise View all posts
نورالعین
چکا چوند روشنیوں کے شہر کراچی کے ایک فلیٹ میں ملی اداکارہ حمیرااصغر کی آٹھ ماہ پرانی لاش ایک خاموش موت، جس نے پورے معاشرے کو ایک تلخ حقیقت سےآگاہ کیا ۔ کیا ہم واقعی جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ رشتے نبھا رہے ہیں، یا صرف سوشل میڈیا پر زندہ دکھائی دینے والوں کے ساتھ ؟حمیرہ کی موت صرف ایک سانحہ نہیں، ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ رشتے صرف خون یا تصویر کے نہیں، احساس کے ہوتے ہیں۔ ہم روز جیتے جاگتے لوگوں کو ان سُنا کرتے ہیں، ان کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہیں، اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو افسوس میں صرف ایک پوسٹ لگا کر فرض ادا کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رشتوں کی سب سے بڑی موت غلط فہمی، انا اور لاپرواہی سے ہوتی ہے۔ سگے رشتے بھی تب بے معنی ہو جاتے ہیں جب ان میں احساس نہ ہو، جب کسی کی خاموشی سنی نہ جائے، جب دل کی آواز پر کان نہ دھرا جائے۔ حمیرا اصغر کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا اُس کا چہرہ مستقل خاموش ہوا، اور ایک زندگی تنہائی کے اندھیرے میں گُم ہو گئی ، سب نے اسے صرف ایک خبر سمجھ کر ایک آدھ بات کہہ دی ، کوئی کمنٹ لکھ دیا اور آگے بڑھ گئے ۔ حمیرا اصغر کی موت طبعی موت تھی یا پھر قتل یہ ایک الگ موضوع ہےمگر حمیرہ کی موت صرف ایک فرد کا سانحہ نہیں، بلکہ ہمارے رویوں، ترجیحات اور احساس کی سطح پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ آج کے تیز رفتار دور میں ہم نے رشتوں کو صرف ظاہراً نبھانا تو سیکھ لیا ہے لیکن دل اور خلوص سے جوڑنے کا ہنر کہیں کھو چکے ہیں۔ ہم لوگوں کے بہت قریب ضرور ہوتے ہیں جب وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں، لیکن ہم اُن کے جذبات ، دلی کیفیت اور اندر کے دُکھ کو کبھی محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اکثر وہ لوگ جو بہت ہنستے ہیں، دراصل اندر سے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں، مگر ہمیں صرف اُن کی ہنسی نظر آتی ہے۔ ہنسی کے پیچھے کراہتا ہوا دُکھ ہمیں بھی دکھائی نہیں دیتا ۔سوشل میڈیا کے دور میں اکیلا پن ایک عالمی وبا بن چا ہے ۔ سوشل میڈیا پر انسان کے ہزاروں فالوورز ہوتے ہیں، فرینڈز ہوتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود انسان اکیلا ہو تا ہے کیونکہ وہ ہزاروں فالوورز ، ہزاروں دوست صرف ایک مصنوعی دنیا کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے لیکن ہر بار وہ “ٹھیک ہوں” کہہ کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن اندر ہی اندر گھلتاجاتا ہے۔ حمیرا اصغرکی کہانی بھی کافی حد تک ایسی ہی ہے ۔ شو بز کی چکا چوند زندگی میں ایک اداکارہ، ایک خوبصورت چہرہ اور بلندی پر جانے کا ایک خواب۔ وہ اپنے خوابوں کی تکمیل لئے تنہا لڑتی رہی، لیکن زیادہ دیر لڑ نہ سکی اور ہار گئی۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مرنے کے بعد ہی کسی کے دکھ کی سمجھ آتی ہے۔زندہ لوگوں کے لئے ہمارے پاس سمجھنےکی حس ہی موجود نہیں۔ رشتوں کی موت کسی حادثے سے نہیں، احساس کی عدم موجودگی سے ہوتی ہے۔ آج کا انسان ایک دوسرے سے جسمانی طور پر قریب تو ہے ، مگر جذباتی طور پر کٹا ہوا ہے۔ ہم اپنے قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور جاننے والوں کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں جانتے ۔ بلکہ ناواقف ہی رہتے ہیں ۔ لیکن ذرا سوچئیے ، کبھی صرف ایک فون کال، ایک ملاقات، یا ایک توجہ بھرا جملہ کسی کی زندگی میں کچھ لمحوں کے لئے خوشی لا سکتا ہے ، کسی کی زندگی بچا سکتا ہے۔ لیکن ہم اپنے لمحوں کے استعمال میں بھی اتنے کنجوس ہیں کہ ہمیں تب خیال آتا ہے کہ شاید ایسا کر لیا ہوتا لیکن تب تک وہ انسان زندگی چھوڑ چکا ہوتا ہے۔
سماجی ڈحانچے کی یہ اجتماعی بے حسی روز کسی نہ کسی “حمیرا” کو نگل رہی ہے۔ وہ رشتے جو بچائے جا سکتے ہیں، غلط فہمی، لاپرواہی ، انا، یا ضد کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ہم سب کو اپنے اردگرد کے لوگوں کو محسوس کرنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔ کسی کی صرف ظاہری صورت و تاثرات پر مطمئن نہ ہوں ۔ اُس کے اندر کی آواز سننے کی کوشش کریں۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ رشتے خون سے نہیں، دل سے بنتے ہیں۔اگر ہم اتنے مصروف ہیں کہ اپنے ارد گرد رہنے والوں کے چہروں پر لکھا دُکھ بھی ہم محسوس نہ کر سکیں تو ہم انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں۔ حمیرااصغر کی موت ایک سبق ہے ان سب کے لیے جو اپنے اردگرد کے افراد کو صرف تب ہی یاد کرتے ہیں جب وہ دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ سماج کو بہتر بنانا ہے تو یہ روش بدلنا ہوگی۔ رشتوں کو سنبھالنا ہو گا، اندر کے درد کو سننے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔جو دُکھ میں زندہ ہیں ایسے زندہ لوگوں کو جینے کی امید دینا ہو گی۔ کہیں ہمارے رویوں سے، ہماری بے توجہی سے، کوئی اور “حمیرہ” خاموشی سے مر نہ جائے۔
1 Comment
جاویداسد
July 17, 2025, 9:20 pmنورالعین کا کالم زندہ لوگ مردہ رشتہ بہت اچھی تحریر ہے۔ حمیرا اصغر پر اس وقت بہت سے کالم نگار اینکر پرسن رپورٹر صحافی انکشافات بھی کر رہے ہیں اور عوام کا ضمیرجگانے کی کوشش بھی ۔نور العین کی چاشنی الگ ہے
REPLY