Author Editor Hum Daise View all posts
نورالعین
تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ۔ یہ الفاظ تھے اپنی قتل گاہ کی جانب بڑھتی ہوئی شیتل(بانو) کے ۔ جس کی پر اعتماد چال بندوقیں لے کر پیچھے کھڑے بے شمار جواں مردوں کی غیرت پر بھاری پڑ گئ ۔ قرآن اس کے ہاتھ میں تھا ۔ جو اس سے چھین لیا گیا ۔ اس نے بار بار پوچھا بتاؤ اس قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ مرضی سے نکاح کرنے کی سزا موت ہے ۔ وہ سورہ النساء کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سُناتی رہی ۔ لیکن جرگے کو تو صرف اپنی خود ساختہ روایات سے مطلب تھا ۔ وہ روایات جن کے بل بوتے پر سردار اپنے قبیلے پر حکومت کر سکیں ۔ کہا گیا ہے کہ قبیلے کا سردار اپنے قول سے پھر گیا ۔ کیونکہ جب لڑکا لڑکی نے کہا کہ ہمارا نکاح ہو چُکا ہے اور ہم شرعی میاں بیوی ہیں ۔ تو قبیلے کے جواں سال سردار نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر تمہیں علاقہ بدر کیا جاتا ہے ۔ تم جاؤ پہاڑوں ویرانوں میں جا کر چھ مہینے رہو ۔ اور یہاں سے کوئی چیز کھانے کی پینے کی یا پہننے کی نہ لے کر جانا ۔ یہ سردار کاقول تھا ۔ اور پھر جب شیتل اور احسان زرک کو گاڑی میں بٹھا کر لے جایا جا رہا تھا ۔ تو ایک جگہ گاڑی روک کر شیتل سے قرآن پاک لے لیا گیا ۔ تب لڑکی کی سمجھ میں آ گیا کہ قبیلے کا سردار اپنی زبان سے پھر گیا ہے ۔ اپنے قول سے مُکر گیا ہے تب شیتل نہ گھبرائی ، نہ بدکی ، نہ گڑگڑائی نہ رحم کی بھیک مانگی صرف اتنا کہا تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ۔ یعنی ہاتھ لگانا نہ پتھر مارنا نہ زندہ دفن کرنا نہ لاش کی بے حرمتی کرنا ۔ شیتل باوقار انداز میں چلتی ہوئی اپنی مقتل گاہ تک گئی ۔ اور پیچھے سے لگی سر میں ایک گولی نے اُس کو بے رحم دُنیا سے اُس دُنیا میں پہنچا دیا جہاں حساب لینے والا بہت سخت ہے ۔ شیتل کے شوہر کو پے درپے کئی گولیاں ماری گئی ۔ اور وہ جواں مرد بھی اپنی محبت کی خاطر شرعی تقاضوں کو پورا کرنے کے باوجود جان کی بازی ہار گیا ۔ اور جرم کیا تھا ۔ صرف اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا فیصلہ ۔ بلوچستان کے ایک قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے اس جوڑے نے ڈیڑھ سال پہلے مبینہ طور پر پسند کی شادی کی تھی ۔ یہ بلوچستان میں ایک سفاک ترین خود ساختہ بے بنیاد “انصاف” کا واقعہ ڈیڑھ ماہ بعد سامنے آیا ۔ جس نے ایک بار پھر اس معاشرتی ناسور کو آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کیا ہے ۔ جسے “آنر کلنگ” یعنی غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے ۔
لیکن غیرت کیوں صرف عورت کی مرضی کی شادی ، اس کی سوچ، اس کی پسند، تک محدود ہے؟ کیوں ہر بار نشانہ عورت ہی بنتی ہے؟ تو حقیقت میں غیرت کے نام پر قتل اصل میں غیرت کے نام پر قتل ہوتاہی نہیں۔ یہ طاقت، تسلط اور سماجی دباؤ کا وہ ہتھیار ہے جو عورتوں کو خاموش اور ملکیت رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں پچھلے مہینے ایک لڑکی کو صرف اس لئے قتل کر دیا گیا کہ اس نے ایک لڑکے سے شادی سے انکار کیا تھا ۔ اور پھر اُسی لڑکے نے گولی مار کے اُس معصوم کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔ کیسا معاشرہ ہے ایک طرف نکاح کرنے پر موت کی سزا دوسری طرف نکاح نہ کرنے پر قتل کر دینا ۔ یہ تسلط ہی کی تو کیفیت ہے جو اکثر مردوں کے دماغ کو جکڑے رکھتی ہے کہ جو عورت اسے پسند ہے وہ اس کی ملکیت ہے ۔
شریعت کی اگر بات کی جائے تو اسلام عورت کو نکاح کے معاملے میں مکمل اختیار دیتا ہے۔ عورت کی مرضی نکاح کا باطل جزو ہے ورنہ نکاح باطل ہے۔پھر ہم کس بنیاد پر عورت کی پسند کو جرم بنا کر اس کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہئیے کہ والدین اپنی بیٹی کی پسند جان کر خود اس کی شادی کا انتظام کریں ۔ لیکن یہاں مردوں کی آپسی دشمنی ، تکبر یا ذات کی اونچ نیچ آڑے آ جاتی ہے ۔ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو وطن کے لئے ہو چاہے محبوب کے لئے ، انسان پھر اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا ۔ محبت تو ایک آفاقی جذبہ ہے لیکن اس پاکیزہ جذبے کو رشتے کا رنگ دینے کی بجائے بھیڑیئے نما انسان ہاتھ میں بندوق اٹھائے سروں میں گولیاں مارنے کو تُل جاتے ہیں ۔
پاکستان کا قانون ہر شہری بلا تفریق مرد و عورت کو زندگی، آزادی اور برابری کا حق دیتا ہے۔ تو کس قانون کے تحت خاندان یا قبیلے اپنی عدالت لگا کر سزائے موت جاری کرتے ہیں؟ ریاست بھی کہیں نظر نہیں آتی جب شیتل جیسی بیٹیاں چادر اوڑھ کر قرآن کے سائے میں موت کو گلے لگا رہی ہوتی ہیں؟ اب جبکہ شیتل کے قاتل گرفتار ہو چُکے ہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے کا نوٹس تبھی لیا گیا جب سوشل میڈیا پر خود قاتلوں نے وڈیو لگائی ۔ اور وزیرا علیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے تحقیقات و گرفتاری کا وعدہ کیا ۔ لیکن کیا واقعی انصاف ہو پائے گا ۔ کئی سال پہلے ایک خاتون نے اپنے سردار کے خلاف وڈیو بنا کر لگائی تھی کہ سردار نے اس کے بچوں کو اپنی نجی جیل میں قید کر رکھا ہے ۔ کچھ عرصہ بعد اس خاتون اور اس کے بیٹوں کی مسخ شُدہ لاشیں برآمد ہوئی ۔ کیا ہو ا؟ کسی کو سزا ملی ؟ کوئی سردار پکڑا گیا ؟سردار نہیں پکڑے جاتے ہمیشہ وہ چھوٹے مجرم پکڑے جاتے ہیں جن کی طاقت کے ایوانوں تک پہنچ نہیں ہوتی ۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہےایسے جرائم اور جرگے کے ایسے فیصلوں کی روک تھام کے لئے تو یہیں سے آغاز کریں۔ اس سردار اور اس کے ساتھیوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور جو سزا قتل کی ہے ان کو دی جائے۔ لیکن پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے قوانین تو موجود ہیں ، مگر ان پر عملدرآمد آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر اوقات ایسے قاتل “معافی” یا “راضی نامے” کی آڑ میں بچ نکلتے ہیں۔ یہ کیسا عدل ہے کہ قاتل، مقتول کا وارث بھی ہو اور معاف بھی کر دے؟ تو کسی نےکیا خوب کہا ہے کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا ہے اور طاقتور پھاڑ کے نکل جاتا ہے ۔ ہمارا نظام انصاف ظالم کو تحفظ دیتا ہے، اور مظلوم کو قبر میں دفن کر دیتا ہے ،بغیر انصاف، بغیر آواز۔
لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح شیتل یا بانوکے قتل کی مذمت کی گئی ۔ جیسا رد عمل پورے ملک سے سامنے آیا تو امید ہے کہ اب یہ خاموشی ٹوٹے گی ۔ آئندہ کوئی شیتل مرضی کی شادی کی وجہ سے جان سے نہیں جائےگی ۔ یہ وقت ہے خاموشی توڑنے کا۔ میڈیا ، تعلیمی اداروں کو، خصوصاََ علماء کو چاہیے کہ وہ اس نا انصافی کے خلاف آواز بلند کریں۔ لوگوں کو بتائیں کہ مرضی کی شادی ناپسندیدہ تو ہو سکتی ہے لیکن جُرم نہیں۔ قانون میں ایسی تبدیلی لائی جائے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو کوئی رعایت نہ ملے۔ اور ا یسے کیسز میں ریاست خود فریق بنے اور مُلزم کو سزا دلوائے ۔
شیتل ایک نام نہیں، ایک دیوار تھی جو معاشرے کی ناانصافی ،فرسودہ رواجوں کے آگے دیوار بن کے کھڑی ہو گئی مگر سماج نے اسے گرا دیا۔ فرعونیت کے سامنے یہ دیوار پھر سے اٹھانا ہو گی اور خود ساختہ غیرت کو اس میں چُن کر دفن کرنا ہو گا ۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *