مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


سرگودھا میں جبری مذہب تبدیلی کے واقعہ کی پنجاب اسمبلی میں بازگشت

سرگودھا میں جبری مذہب تبدیلی کے واقعہ کی پنجاب اسمبلی میں بازگشت

    Author Editor Hum Daise View all posts

 

 

سمیر اجمل
جبری مذہب تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والی اقلیتو ں کو پریشانی کا سامنا رہے اور ہے!یہ ایک حقیقت ہے جس سے پاکستان کی تمام اقلیتیں (کرسچین ’ہندو ’سکھ برادری) متاثر ہیں اور اس کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتی ہے جبری مذہب تبدیلی کے معاملے کو پسند کی شادی سے جوڑا جاتا رہا ہے اور اس امر کو ماضی میں ہونے والے ایسے متعدد واقعات تقویت دیتے ہیں جن میں کم عمر بچیوں کی اغوا کرنے بعد ان کے نکاح نامے اور تبدیلی مذہب کے سرٹیفکیٹس عدالتوں میں پیش کئے جاتے رہیں یہ بتانے کے لئے یہ ان بچیوں نے اپنی مرضی سے پسند کی شادی کروانے کے لئے مذہب تبدیل کیا ہے۔عدالتوں میں سماعت کے بعد کچھ بچیوں کو تو والدین کے ساتھ بھیج دیا گیا جبکہ اکثر بیشتر عدالتو ں میں نکاح اور تبدیلی مذہب کے سرٹیفکیٹس کو تسلیم کرتے ہوئے ان بچیوں کو نئے خاندان اور نئے مذہب والوں کے حوالے کرنے کے حکم بھی دیا گیا ہے جس پر اقلیتوں کی جانب سے جبری شادیوں اور مذہب تبدیلی کو روکنے کے لئے عمر کی حد مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے‘ مذہب تبدیلی کے نام پر کم عمر بچیو ں کا اغواء اس قدر سنگین صورتحال اختیار کرچکا تھا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو ”بیٹی بچاؤ“ جیسی تحریکیوں کا آغاز کرنا پڑا۔ اقلیتوں کے موثر احتجاج اور مختلف پلیٹ فارمز پر آواز اٹھانے کے نیتجے میں شادیوں کے لئے عمر کی حد مقرر ہونے اور قانون سازی سے کم عمر بچیوں کے اغواء جبری شادیوں اور مذہب تبدیلی کے واقعات میں کچھ کمی آئی ہے مگر اب اس سے بڑے مسلے نے جنم لے لیا ہے‘جبری مذہب کے معاملے کو ابھی کم عمر بچیوں کے بجائے بچوں کی جانب موڑدیا گیاہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔گزشتہ دنوں سرگودھا نے نواحی علاقے سلطان ٹاؤن میں ایسا واقع پیش آیا ہے جس کی بازگشت پنجاب اسمبلی میں بھی سنائی دی گئی ہے اور اس پر سیکرٹری پارلیمانی امور کو صورتحال کا نوٹس لے کر متاثرہ مسیحوں کے تحفظات دور کرنے کا کہا گیاہے۔سرگودھا کی سلطان کالونی کی رہائشی بیوہ ریحانہ بی بی کا کہنا ہے کہ ا س کے نابالغ بیٹے شمروز مسیح کو اس کے استاد (جس کے پاس وہ کام کرتا تھا) نے زبردستی مذہب تبدیلی پر مجبور کیا ہے اور اس کا مذہب تبدیل کروا کے اس کو اپنے مذہب میں داخل کرلیا ہے۔ شمروز مسیح کی اغواء کی بابت تھانہ اربن ایریا میں اس کے بھائی ساحل مسیح کی مدعیت میں ایک ایف آئی آر درج ہے مگر اس کے ایف آئی آر پر کارروائی سے پہلے ہی شمروز مسیح کے تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ منظر عام پر آگیاہے۔شمروز مسیح کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی جس شخص کے پاس کام کرتا تھا اس کے برے رویے بارے اس نے گھر آکر بتایا تھااور کہا تھا کہ وہ اب کام پر نہیں جانا چاہتا جس پر اسے کام سے ہٹوا دیا گیا تھا اور وہ گھر پر ہی تھا تاہم کچھ روز پہلے جب کہ شمروز گھر پر اکیلا تھاچند افراد اسے گھر سے اغواء کرکے لئے گئے جس کی اغواء کی بابت تھانہ فیکٹری ایریا میں ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی اس ایف آئی آر پر کارروائی سے پہلے ہی لاہور کی ایک عدالت میں شمروز کی مذہب تبدیلی کے حوالے سے بیان اور سرٹیفکیٹ پیش کردیا گیا جس پر پولیس نے اغواء کے پرچے میں نامزد ملزمان کو گرفتار کرنے اور مزید کارروائی کرنے کے بجائے یہ کہہ کر کیس بند کردیا ہے کہ مغوی نے ازخود مذہب تبدیل کیا ہے اور گھر سے چلا گیاہے جبکہ شمروز کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک چرچ جانے والا دعاگو بچہ تھا یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مذہب تبدیل کرلے کم عمر اور نابالغ ہونے کی وجہ سے دباؤ ڈال کر اسے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیاہے۔ شمروز کے بھائی نے اس سے بھی زیادہ سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے شمروز کے میڈیکل کی بابت عدالت میں درخواست جمع کروائی ہے اس کا کہنا ہے شمروز جس کے پاس کام کرتا تھا اس نے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہب تبدیلی کا ڈرامہ رچایا ہے میڈیکل ہونے پر شمروز کے سامنے آکر دباؤ کے بغیر آزدانہ طور پر بیان دینے سے تمام معاملات سامنے آجائیں گے۔ بظاہر یہ مذہب تبدیلی کا ایک عام سا معاملہ ہی نظر آتاہے مگر یہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی باز گشت اسمبلی میں بھی سنائی دی ہے۔اقلیتی ایم پی اے فیلبوس کرسٹوفر نے اس واقع کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اسے مسیحی برادری کے لئے ایک اندوہناک سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعہ کی وجہ سے مسیحی اپنے آپ کو عدم تحفظ کا شکار محسوس کر رہے ہیں اور صدمے کی حالت میں ہیں انہو ں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ایک نابالغ بچہ جس کے اغواء کی ایف آئی آر درج ہو اس کا مذہب تبدیلی کی سرٹیفکیٹ کی تصدیق تو ہونی چاہئے کہ کیا یہ سچ ہے جھوٹ!جس پر انہیں سیکرٹری پارلیمانی امور سے مل کر معاملہ حل کرنے کا کہا گیاہے۔ پنجاب اسمبلی میں جس طرح سے اس معاملے پر آواز اٹھائی گئی ہے یہ قابل تحسین ہے اس سنگین واقع کی مکمل انکوائری ہونی چاہئے اور اگر یہ واقعہ ہی جبری مذہب تبدیلی کا معاملہ ہے تو اس کی روک تھام کے لئے اقدامات ہونے چاہئے کیونکہ کم جبری مذہب تبدیلی کا معاملہ کم عمر بچیوں سے اگر بچوں کی جانب چلا گیا تو یہ خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author