Author Hum Daise View all posts
سمیر اجمل
بارشیں‘ سیلاب‘ اور زلزلہ اگر چہ قدرتی آفات ہیں جن کا سامنا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے مگر خدا نے انسان کو جو عقل دانش دی ہے اس کا استعمال کرکے ان آفات کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے اور تباہی سے بچا جا سکتا ہے مگر بد قسمتی سے ہم جس خطے میں رہتے ہیں یہاں عقل دانش کا استعمال کم ہوتاہے۔ قدرتی آفات ہوں یا انسان کے اپنے ہی تیار کردہ تباہی کے منصوبہ جات ان کی روک تھام کے لئے حکمت عملی کے بجائے اگر مگر سے کام چلایا جاتاہے اور ذمہ داری مخالفیں پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ رویہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی جس کا مظہر سیلاب سے ہونے والے حالیہ نقصانات میں بھرپور انداز سے سامنے آیا ہے اگر چہ امسال بارشیں زیادہ ہوئی ہیں مگر سیلا ب انہیں رستوں اور دریاؤں سے آیا ہے جہاں سے کہ وہ ماضی میں آتا رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح سیلاب کی تباہی اور بربادی دیکھ کر ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئے اقدامات نہ ہونے کا رونا رویاجارہا ہے مگر اس بار چونکہ نقصان زیادہ ہواہے اس لئے اس بات کو بھی بار بار دہرایا جارہا ہے کہ ہمسائیہ ممالک نے پیشگی اطلاع کے بغیر پانی چھوڑا ہے اور پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتاہے اور اس کی آبی جارحیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر جب ہمیں اس بات کا علم ہے تو کیا حکومت وقت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ دشمن ملک کی جانب سے جارحیت ہونا تھی اس کے سدباب کے لئے قبل ازوقت اقدامات کرے؟ چونکہ یہ اقدامات نہیں کئے گئے اس لئے امسال اس سیلاب کے باعث کئی گنا زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔حکومتی ذرائع سے حاصل کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق سیلاب سے 2308 موضع جات اور 15لاکھ 16ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں ان میں سے 4 لاکھ 81ہزار لوگوں کوریسکیو کیا جا چکاہے جبکہ 4لاکھ 5ہزا ر کے لگ بھگ مویشیوں کو محفوظ مقامات پر متنقل کیا جاچکا ہے ان اعداد و شمار میں جانی نقصانات شامل نہیں ہیں کیونکہ ابھی تک بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ تھما نہیں ہے اس لئے جانی نقصانات کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ ویسے توسیلاب سے اکثریت اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں مگر اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو زیادہ مسائل اور پریشانیوں کا سامناہے اس لئے حکومت کو ان کے سدباب کے لئے الگ سے پلان تشکیل دینا چاہئے تاکہ ان کی داد رسی ہوسکے۔پنجاب میں زیادہ نقصانات دیہی علاقوں میں ہوا ہے لوگوں کی تیار فصلیں پانی کی زد میں آنے سے برباد ہوچکی ہے اور یہی آفت اقلیتوں کے لئے بڑا صدمہ ہے کیونکہ پنجاب کے زیادہ تر آباد کار اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں‘پنجاب کے ہر ضلع ہر گاؤں میں اقلیتیں موجود ہیں جن کی آبادیاں نشیبی علاقوں میں واقع ہیں یہ آبادیاں بارشوں کی وجہ سے اربن فلڈنگ کی زد میں ہیں جبکہ ان کے دیہات سیلاب کے پانی کی نظر ہوچکے ہیں‘ معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے پاس روزگار بھی بہتر نہیں ہے دیہات میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد یا تو بطور مزارع کام کرتے ہیں یہ پھر ان کا ذریعہ معاش بھٹوں پر کام سے وابستہ ہے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ان سے یہ دونوں ذرائع معاش چھن چکے ہیں اس لئے حکومت کو ان افراد کے بحالی اور مدد پر خصوصی توجہ دینی چاہئے تانہ ہوکہ ذریعہ معاش نہ ہونے کے باعث معاشی تنگدستی ان کو سٹرکوں پر لے آئے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *