مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


سیلاب کی تباہ کاہ ریاں اور مستقبل کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت

سیلاب کی تباہ کاہ ریاں اور مستقبل کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت

    Author Hum Daise View all posts

 

 

نور العین
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا انحصار دریاؤں اور بارش کے پانی پر ہے۔ لیکن جب بارشیں بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اور دریاؤں میں طغیانی آتی ہے تو یہ پانی انسانی جانوں اور معیشت کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں آنے والے سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ کئی اضلاع میں بہت سے گاؤں زیر آب آ گئے، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، ہزاروں مکانات منہدم ہو گئے اور سینکڑوں افراد جاں بحق یا زخمی ہوئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس سیلابی صورتحال میں بھارت کا کردار بھی قابل ذکر ہے۔ بھارت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دریاؤں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے کشمیر کے ڈیمز کے دروازے کھول دیئے، جس سے راوی اور ستلج کی سطح پاکستان میں خطرناک حد تک بڑھ گئی۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق، صرف پنجاب میں حالیہ سیلاب سے 42 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
شدید سیلابی صورتحال کی وجہ سے 4 ہزار 355 سے زیادہ موضع جات متاثر ہوئے، جبکہ 20 لاکھ 14 ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
حکومتِ پاکستان اور حکومتِ پنجاب نے متاثرین کی مدد کے لیے ہنگامی اقدامات کیے ہیں۔ ریسکیو آپریشنز کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، ریلیف کیمپس قائم کیے گئے جہاں متاثرہ خاندانوں کو کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پاک فوج، ریسکیو 1122،ضلعی انتظامیہ اور دیگر ادارے بھی امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے خاص طور پر نکاسی آب کے نظام کی بحالی اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی مرمت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ متاثرہ علاقوں کو جلد از جلد معمول کی زندگی کی طرف واپس لایا جا سکے۔
تاہم مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ کئی علاقے اب بھی پانی میں گھرے ہوئے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کو پینے کے صاف پانی، خوراک اور طبی سہولیات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان زرعی شعبے کو پہنچا ہے جس کے نتیجے میں کسان طبقہ معاشی طور پر کمر توڑ مشکلات سے دوچار ہے۔
اس صورتحال سے نجات پانے کے لیے صرف وقتی ریلیف کافی نہیں بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ مضبوط بند اور ڈیمز کی تعمیر، نکاسی آب کے جدید نظام، بروقت موسمیاتی وارننگ سسٹم اور عوامی آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تعاون اور وسائل کی شفاف تقسیم کے ذریعے بھی نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔
سیلاب کی حالیہ تباہ کاریاں یہ یاد دہانی کرواتی ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اگر حکومت، ادارے اور عوام مل کر اپنا کردار ادا کریں تو آنے والے وقت میں ایسی آفات کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

Author

Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author