Author Editor Hum Daise View all posts
سمیر اجمل
زراعت کی ترقی کے نام پر حکومت کی جانب سے کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینے کاعمل جاری ہے جس پر سول سوسائٹی کی تنظیموں خاص کر انجمن مزارعین کی جانب سے باضابطہ طور پر احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا گیاہے۔اس ضمن میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی‘ انجمن مزارعین پنجاب اور حقوق خلق پارٹی کا مشترکہ اجلاس چند روز قبل منعقد ہوا جس میں لاہور سمیت پنجاب بھر کی سیاسی جماعتوں‘ کسان‘ مزدور‘ طلبہ‘ اساتذہ‘ تاجر‘ وکلا‘ صحافیوں سمیت انسانی حقو ق کی تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت کی‘اس اجلاس میں انہیں پنجاب کے مزارعین کا مقدمہ سنایا گیا اور بتایا گیا کہ کس طرح سے کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کاشتکاروں اور آبادکاروں کو زمینوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ پنجاب‘ سندھ بلکہ پورے پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر مزارعین سے زمینیں چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب کے کئی اضلاع میں مقیم مزارعین کے ہزاروں خاندانوں کو زمینوں سے بے دخل کرکے وہ زمینیں کارپوریٹ مافیہ کو دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔یہ زمینیں مزارعین کے خاندان نسل در نسل آباد کرتے ہیں اور انہوں نے انتھک محنت سے ان بنجر زمینوں کو کاشت کے قابل بنایا ہے‘ مزارعین کی بھرپور جدوجہد اور قانونی لڑائی کے نتیجے میں عدالت کی جانب سے بھی یہ احکامات جاری ہوچکے ہیں کہ آبادکاروں کی زمینیں ان کی ملکیت ہیں اور انہیں کوئی بے دخل نہیں کرسکتا ہے‘ مگر حکومت مزارعین کو مالکانہ حقوق دینے کے بجائے کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر ان سے زمینیں چھیننے کے در پے ہے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ مزارعین کی 2700ایکڑ زمین کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر مختلف کمپنیوں کو دی جارہی ہیں جس کی لیز 30سے 50سال مقرر کی گئی ہے‘ حاصل میں کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر مزارعین کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی جسے کہ ناکام بنا دیا گیاتھا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مزارعین کوبے دخل اور تنگ کرنے کے لئے حکومت اب اور ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے مزارعین کو ٹھیکہ حصہ بٹائی کے نوٹسز جاری کئے جارہے ہیں۔مقامی تحصیلداروں اور پٹواریوں کی مدد سے مزارعین کو لاکھوں بلکہ کروڑں روپے کے نوٹسز جاری کئے جارہے ہیں‘ پولیس کی دھونس سے مزارعین سے زبردستی انگوٹھے لگوائے جارہے ہیں کہ وہ نادہندہ ہیں اور واجبات کی ادائیگی کے لئے تیار ہیں۔محکمہ مال کی جانب سے بھی مزارعین کو نوٹسز جاری کرکے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ مزارعین کے مسائل کے حل اور مطالبات پر غور کے لئے مزارعین کے حقیقی نمائندگان کو کمیٹی میں شامل کرکے بامقصد مذاکرات شروع کئے جائیں‘ یہ ایک حقیت ہے کہ ملک ترقی اور زراعت کی بہتری کے لئے کارپوریٹ فارمنگ ضروری ہے مگر مزارعین اور کاشتکاروں کے تحفظات دور کیا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ مزارعین نے حقوق ملکیت کے حصول کے لئے طویل جدوجہد کی ہے اور کررہے ہیں۔ میں جب ملتان کے روزنامہ میں فراض سرانجام دے رہا تھا تو اس وقت میں نے پیروال میں انجمن مزارعین کا احتجا ج دیکھا ہے‘ مالکی یا موت کا نعرہ لگانے والے مزارعے بیوی بچوں کے ہمراہ سڑکوں ہوتے تھے یہ لوگ نہ پولیس کی لاٹھیوں سے ڈرتے تھے اور نہ ہی وردی کا خوف ان کے دل میں تھا یہ منظر میں نے اوکاڑہ میں بھی دیکھا تھا‘ اوکاڑہ میں مزارعین کے احتجاج کے دوران سیکورٹی اداروں کی فائرنگ سے دو نوجوان موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے مگر اس کے باوجود ان کی جدوجہد نہیں رکی‘ ان کے رہنماؤں نے جیلیں کاٹی ہیں‘ پولیس کی مار کھائی ہے اگر آج بھی ان کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ”ساڈا حق ایتھے رکھ“ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ مزارعین کے تمام تحفظات دور کرے کیونکہ یہ لوگ نہ ڈرنے والے ہیں نہ بکنے والے یہ صرف اور صرف اپنے حق کے لئے لڑنے والے ہیں۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *