اعظم معراج Author Hum Daise View all posts
اعظم معراج
چھوٹے ہوتے ہوئے جب بھی چھٹیوں میں گاؤں جانا ہوتا۔ تو گاؤں جانے کی خوشی کے ساتھ ایک ڈر لگا رہتا۔ طالب علم ہونے کے باوجود پڑھنے لکھنے سے اپنی دوری ۔ قابلیت کا یہ عالم تھا کیا۔ ایف ایس سی میں فیل ہونے کے باوجود ڈی ایچ اے کی نوکری میں پروموشن ٹیسٹ کے لئے بنیادی حساب کتاب شہزاد جو امیتاز گل کے ناتے اپنا بھی برادر خرد ہے ۔جو اس وقت شائد آٹھویں نویں میں تھا. اس سے حساب سیکھنا پڑا ۔ تحریک شناخت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے 16 سترہ کتب بھی لکھ ماری۔ ملک میں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں شفافیت اور پیشہ وارانہ رویوں کی ترویج و ترقی کے لئے بھی پانچ کتابیں ترتیب دے دی۔۔لیکِن یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں “شاندار تعلیمی پس منظر “کی بدولت آج بھی بھی ڈھنگ سے اردو لکھنی پڑھنی اور بولنی نہیں آتی.. بچوں اور یار دوستوں کی مدد سے تین انگریزی کتابیں ایمزون کینڈل پر بھی ہیں ۔۔لیکن یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں ،کہ انگریزی تو ہے ہی غیر زبان اور غیر زبان ہم جیسے گنہاگاروں پر کب اُترتی ہے ۔۔ اس لئے انگریزی نہ آتی تھی۔۔ نہ آتی ہے ۔۔اج بھی کہیں پھنسے ہوئے دو لفظ بولنے پڑھ جائیں تو گلا خشک ہو جاتا ہے ۔۔ایک تو یہ وجہ کہ ہماری علمی استعداد جہالت کی لکیر سے بھی کافی نیچے سطح کی تھی۔۔ دوسری وجہ یہ تھی، کہ تھوڑے بہت پڑھے لکھے لیکن انتہائی کھوچل قسم کے دیہاتی مامے، چاچے ،کزن سوال بڑے کرتے ۔جواب نہ دے سکنے پر مذاق اُڑاتے ، کہ دیکھو فلاں بہن یا بھائی کا بیٹآ آٹھویں نویں یا دسویں میں پڑھتا ہے۔ اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ ایک تو ہم نالائق بہت تھے۔ دوسرے یہ کھوچل حضرات سوال بھی بڑے مشکل کرتے مثلاً ترکونے ،حقے، گوبر کی پاتھیوں ،اوپلوں یا ایسی ہی دیگر دیسی اشیاء کی انگریزی پوچھی جاتی۔خیر اسی ڈر میں بڑا وقت گزر گیا ۔۔ چند سال پہلے ایک این جی او ملازم ٹرن لکھاری سے بات چیت ہوئی، تو میں نے جس کے بہت سارے ڈر نکل چکے ہیں۔۔لیکن اس طرح کے خوف لاشعور میں کہیں نہ کہیں چھپے بیٹھے ہوئے ہیں ۔۔ موصوف نے سی، ای، گبن (سیسل ایڈورڈ گبن)کے زکر پر مجھ سے سی ای گبن کا پورا نام پوچھ کر مُجھے اسی خوف کی یاد دلا دی ۔ خیر میں نے اقرار کرکے کے کہ مجھے نہیں پتہ ،انکی اس علمی نرگسیت کی کچھ تشفی کی کہ “اگر میں سقراط ،بقراط کے دور میں پیدا ہؤا ہوتا تو پھر دیکھتا کہ وہ مجھ سے بہتر کیسے ہوتے.”۔ ۔۔اج پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اور اسپیکرکی کرسی نام کے مضمون کی تیاری کرتے ہوئے۔ پھر سیسل ایڈورڈ گبن المعروف سی ای گبن کا نام دیکھا تو ترکونا ،حقہ، جیلیںاں ، گوبر کے اوپلوں اور کسی کے نام کی فل فام جانچنے والے دانشور یاد آئے اور ساتھ ہی اپنی پھوپھی حمیداں یاد آئی ۔
مرحومہ ابا کی چچا زاد تھیں۔ابا صرفِ چار بھائی ہی تھے ۔اس لئے چاچا زاد بہن کو بہت پیار کرتے تھے ۔۔پھوپھی بہت سخت طبیعت اور حاکمانہ مزاج رکھتی تھیں ۔۔ اتنی سخت کے ایک بار انھوں نے ہی ہمیں اپنی ایک نند کا مکان کرائے پر لے کر دیا۔ امی سے ان بن ہوگئی ۔۔انھوں نے چند گھنٹوں کے نوٹس پر اپنی نند کو کہہ کر ہم سے وہ مکان خالی کروا لیا ۔۔انکے ایک جیٹھ کہیں ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ چلے گئے تھے.. وہی سٹیل ہوگئے ۔۔ ہمارے ایک اور مشترکہ رشتے داروں کا بیٹآ سیمین ( بحری جہاز)پر ملازم تھا۔وہ جب برطانیہ جاتا تو پھوپھی کے جیٹھ کے ہاں بھی چلا جاتا ان کی دؤر کی رشتے داری بھی تھے ۔لیکن میں نے جب بھی پھوپھی کے سفارتی تعلقات اس خاندان سے خراب دیکھے، پھوپھی گلی ،محلے میں اور ان سے لڑائی میں ان کے منہ پر بھی اس بات کا طعنہ دیتی، کہ برطانیہ میں میرے جیٹھ کے گھر جا کر ٹھہرتے ہو ۔ شرم نہیں آتی ادھر مجھ سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو ۔تقریبا دو دہائیوں بعد میں ایف ایس سی میں فیل ہونے کے بعد وقتی طور پر تعلیمی سلسلہ موقوف کرکے ایک سال مختلف جگہوں پر چھوٹی موٹی نوکریاں اور تین سال تین مہینے تین دن کی کلرکی کے ” اعلیٰ ترین و شاندار عہدے ” پر میرے خیال میں لات مار کر اور ادارے کے نقطہء نظر سے نکالے جانے پر دھکے، کھاتا ہؤا رئیل اسٹیٹ میں وارد ہؤا۔ یہاں میری مجھ سے کافی سارے سئینر اور حد سے زیادہ پڑھے لکھے مسیحی اسٹیٹ ایجنٹ سے ملاقات ہوئی۔ یاد رہے (یہ بدتمیزی نہیں یہ وہ خود کہتے ہیں) انکے دوست اور ہمارے ایک اور سئینر مسیحی اسٹیٹ ایجنٹ جو بین الاقوامی سفر کافی کیا کرتے تھے۔ وہ ان صاحب کے کسی رشتے دار اور دوست جو ان کی توسط سے انکے بھی دوست بن چکےتھے ۔۔کے ہاں امریکہ یا شائد برطانیہ جاتے تو ٹھہر جاتے ۔اولذکر سئینر نے جب بھی انکی پیٹھ پیچھے انھیں نیچا دکھانا ہوتا وہ ہم مشترکہ جاننے والوں کے سامنے ان کے وہاں دیار غیر میں رہنے کا ذکر پھوپھی کی طرح ہی حقارت سے کرتے ۔میں نے جب بھی یہ گلہ یا چغلی سنی ۔۔ مُجھے ہمشیہ یہ ہی خیال آیا کہ ، مخصوص ماحول ،تعلیم حالات میں رہتے ہوئے۔ انسان میں نہ صرفِ انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی کچھ ایسی خوبیاں، خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔۔جنکا وسائل ،تعیلم سے تعلق نہیں ہوتا ۔ بلکہ کئی کیسز میں تو یہ بیماری جبلت کا حصہ بن جاتی ہے۔۔ اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہے ۔ کرنل محمد خان نے بجنگ آمد میں لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
“جواب آتا تو جواب دینے میں بیتابی نہ آتا تو احساس جرم ۔ ان لوگوں کی خؤد اعتمادی اور پختگی انکے کردار کا حصہ تھا ۔۔ اور یہ غالباً انکی ابتدائی تعلیم کا فیض تھا ۔ ہمارا احساس کمتری ہماری ابتدائی تعلیم کا عطیہ تھا
ہمارے لئے نئی چیزیں سیکھنے سے زیادہ پرانی عادتیں بھلا دینا تھا۔۔۔ اور ہم میں سے جو ایسا نہ کرسکے وہ بہت اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر بھی نابالغ رہے ۔۔”
لیکن مجھے لگتا ہے ۔کہ برصغیر کے مخصوص تاریخی پس منظر میں مقامی لوگوں کے ساتھ تاریخ کے جبر نے جو کیا ہے اسکا دورانیہ کیونکہ کہ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔۔اس لئے اسکے اثرات بھی نسل در نسل منتقل ہو رہےہیں۔ اور ہمارے مخصوص تاریخی پس منظر میں اس بیماری کے اپنے وجود میں سرائیت کرنے کو مانے بغیر اس کا علاج ممکن ہی نہیں ۔۔اسی لئے ایک عام انپڑھ گھریلو خاتون اور ایک ضرورت سے خاصے پڑھے لکھے و دولتِ مند اسٹیٹ ایجنٹ کے بنیادی رویئے میں کوئی فرق نہیں۔۔۔ اسی طرح کم پڑھے لکھے دیہاتیوں۔ اور پڑھے لکھے بین الاقوامی و مقامی این جی اوز کے ٹرینڈ کئے ہوئے شخص کا رویہ بھی ایک سا ہی ہے ۔۔بلکہ جیسے ہمارا عام پسا ہوا محرومیوں کا مارا ہؤا شخص اگر کسی شئے یا حثیت کے لئے کا بہت خواہشمند بھی ہو۔۔ لیکن حاصل نہ کر سکے، تو کہتا ہے۔۔ میری نظر میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔۔میں نے برصغیر کی ایک بڑے منصب پر رہنے والی خاتون کو ٹی وی پر یہ کہتے سنا ہے.. کہ میں کیا سمجھتی ہوں؟ لال قالین کی خؤش آمدید کو میں نے لال قالینوں والی مہمان داریاں بڑی دیکھی ہوئی ہیں ۔۔ یہ بھی تاریخ ہے ان دنوں وہ لال قالین والے عہدوں کے لئے کتنی بے تاب تھیں ۔ یعنی تاریخ کے جبر نے برصغیر کے باشندوں پر جینیاتی اثرات خاک نشینوں اور مسند نشینوں پر ایک سے ہی چھوڑے ہیں ۔۔ بین الاقوامی شہرتِ کی اعلیٰ درس گاہیں،اعلی اقتداری مسندیں ،دو چار نسلوں سے وسائل کے انبار اس پر فرق نہیں ڈالتے ۔۔باقی مستشعنات قدرت کی دین ہوسکتی ہیں ( جو بہت سی رہی بھی ہیں۔)۔ اس بیماری کا علاج اس کے وجود کو تسلیم کئے بغیر نا ممکن ہے ۔ علاجِ سچ پر مبنی بے رحم خؤد احتسابی،وسیع مطالعہ، سچے لوگوں کی صحبت اور سچ کی حقانیت سمجھے بغیر نا ممکن ہے۔تحریک شناخت کی فکر پھیلاتے ہوئے درس خؤد انحصاری دیتے۔۔ اجتماعی خؤد آگاہی اور تجزیہ طکمخ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے۔۔ جب کبھی سیاسی سماجی یا مزہبی رحجانات رکھنے والے ورکروں سے فکری نشستوں میں مکالمہ کرتے ہوئے ، میں اعداد و شمار شیئر کرتا ہوں۔۔ یا سؤالات کرتا ہوں۔۔ تو مجھے اپنے اندر شرمندگی ہوتی ہے، کہیں یہ نام کی فل فام پوچھنے والی دانشوری تو نہیں ۔۔یا وہ ترکونا یا اوپلا کی انگریزی جاننے جیسی نایاب دانش مندی کا مظاہرہ تو نہیں۔۔؟ لیکن پھر مطمئن ہو جاتا ہوں. میں تو یہ کوشش کررہاہوں، کہ جب کوئی کراچی میں 50لاکھ مسیحی ووٹ سمجھنے والے کو یہ بتایا جائے۔کہ الیکشن کمیشن کے 30جون 2022 اعداد شمار میں پورے سندھ میں مسیحی ووٹرز تقریبا 2 لاکھ 52ہزار اور کراچی میں صرفِ 2 لاکھ 12 ہزار ہیں ۔۔تو میں متعلقہ شخص کو عاجزی سے یہ بتانے کی کوشش کرتا ہوں , کہ کروڑوں روپے لگا کر مسیحی پارٹی بنانے کی بجائے ریاست سے حقوق لینے کے دیگر عناصر پر سرمایہ کاری کرو سیاست کا شوق سیاست کو جان کر کسی بھی قومی سیاسی پارٹی میں پورا کر لو۔۔۔ ان ساری کاوشوں کا مقصد صرفِ یہ ہے، کہ اجتماعی تجزیہ طکمخ کئے اور ریاست سے حقوق لینے کا منبع عناصر کا اپنی اپنی کمیونیٹز میں تخمینہ لگائے بغیر ہمارے سیاسی ،سماجی اور مذہبی رحجانات رکھنے والے ورکر ان خاک نشینوں کے لئے کچھ حاصل نہیں کرسکتے ۔
پھوپھی والی بات یوں دہائیوں بعد یاد آئی کہ کل چچا زاد بڑے بھائی آصف آئے ہوئے تھے۔ چھوٹا بھائی سردار بھی تھا۔ادھر اُدھر کی باتوں میں خالص خاندانی چغلی، بخیلی کا سیشن تھا ۔ بعد میں،میں نے دونوں بھائیوں کو اپنے بچپن کی یہ یاد شئیر کی اتفاق ہے۔۔ دونوں کو پھوپھی کے اس شاندار ہتھیار کا نہیں پتہ تھا۔ یہ میرا مشاہدہ یا فضول چیزوں کو لاشعور میں بٹھائے رکھنے کی بری عادت کانتیجہ ہے ۔۔کہ مجھے لگتا ہے سارے خاندان کو یہ پتہ ہوگا ۔۔سردار کی تو شائد پیدائش سے پہلے کی بات تھی،بڑے بھائی کی یاد میں یہ بات محفوظ نہیں تھی۔ لیکن دونوں ماضی کے ان کرداروں پھوپھی اور ہمارے ان رشتے داروں کو بخوبی جانتے ہیں۔۔اور پھوپھی کی طبیعت کو بھی۔اور ان دونوں اسٹیٹ ایجنٹس کو بھی جانتے ہیں۔ اس لئے دونوں نے خؤب انجوائے کیا ۔ گبن صاحب یوں یاد آئے کہ نویدِ انتھی میرا پرانا محلے دار چھوٹے بھائیوں کی طرح کا تعلق ہے ۔۔ گو کہ ملاقاتیں کم ہی ہوتی ہیں ۔۔ جب سے ڈپٹی اسپیکر بنا ہے ۔۔ ملک بھر بلکہ دنیا بھر میں پھیلے مسیحو میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بہت سے لوگ حقیقی خوشی منا رہے ہیں ۔۔لیکن موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام کی سلیکشن والی خرابی کی وجہ سے بظاہر کئی بڑے خؤش اسکی پارٹی کے ساتھی بھی اندر سے شدید صدمے میں ہیں ۔یقینا نہ اس میں انکے ساتھیوں کو دوش دیا جا سکتا ہے ،نہ نویدِ کا کوئی قصور ہے ۔۔ یہ تو نظام کی خرابی کے پیداوار رویے ہیں ۔ جو بہت اوپر سے نیچے تک معاشرے میں سرائیت کرچکے ہیں۔اس بوسیدہ سڑے گلے نظام نے ہی معاشرے میں حسد ، بغض جیسی خوفناک بیماریوں کو جنم دیا ہے ۔۔ یقیناً یہ پیپلز پارٹی کا ماسٹر اسٹروک ہے ۔اسکا فائدہ پاکستانی مسیحو یا اقلیتوں کو ہو نہ ہو لیکن پیپلز پارٹی کو بہت زیادہ ہوگا ۔ایسے شاندار چھکے لگائے کی مثال پیپلز پارٹی کے پاس ماضی میں بھی ہے ۔لیکن ایسی ٹیموں ان کے حمایتیوں جن کے بالروں کی گیندوں پر یہ چھکے لگائیں جاتے ہیں ۔انکی کیا کفیت ہوتی ہے، اس کے لئے
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا کیا کیا؟
جاننا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ کئی چھکے تو متعلقہ کمیونئیٹز کے لئے دائمی شرمندگی کا باعثِ بن جاتے ہیں ۔شکر ہے نویدِ کے کیس میں یہ صورتحال نہیں ہے ۔۔خیر یہ علحیدہ موضوع ہے۔۔ پاکستان میں شامل برصغیر کے ان علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں تھے, اور بعد جو پاکستان کے حصے میں آئے ۔۔اسپیکر کا عہدہ غیر مسلم شہریوں کے لئے خاص تعلق کا حامل رہا ہے۔مثلا ان عہدوں پر فائز رہنے والے غیر مسلم شہریوں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے، تواس فہرست میں پہلے نمبر پنجاب اسمبلی کے چھوٹو رام تھے۔۔ جو چوتھی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے ۔انکا زمانہ ۔۔ 1936 کے چند مہینے ہی تھا ۔۔وہ ایک بہت اعلیٰ پائے کے سیاست دان تھے۔۔۔۔(۔ویسے تو پنجاب اسمبلی کے 1921میں وجود آنے کے بعد پہلی دونوں اسمبلیوں کے اسپیکر انگریز مسیحی تھے ۔لیکن ہمارا موضوع برّصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں والا خطہ جہاں بعد میں پاکستان بنا وہاں کے مقامی غیر مسلم دھرتی واسی ہیں ۔) دوسرے نمبر پر پہلی سندھ اسمبلی کے اسپیکر دیوان بھوج سنگھ تھے۔ دوسرے تیسرے نمبر پر دوسری اور تیسری سندھ اسمبلی میں محترمہ راج کماری جیٹھی بائی تلسی داس سپاہی میلانی دو دففہ مسلسل ڈپٹی اسپیکر رہی۔ انکا زمانہ 1937سے 1945اور 1946 کے شروع سے 1946 کے آخر تک تھآ ۔۔ یہ ہندوستان کی جنگ آزادی کی بہت بڑی شخصیت تھی۔۔ حیدرآباد میں معتد بار جیلیں کاٹی تقسیم ہند /قیام پاکستان کے بعد ہندوستان چلی گئی ۔۔ وہاں یہاں سندھ سے ہجرت کرکے جانے والے ہندؤ سندھیوں کی بحالی کی انتہائی بے لوث خدمت کی ۔ ہندوستانی سیاسی تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا ہے ۔اس کے بعد چوتھے نمبر پر ۔سنگھا صاحب 21.3.1946سے 7.4.1947 تک غیر منقسم پنجاب کی چھٹی اسمبلی کے آخری اسپیکر رہے ۔۔ قائدِ اعظم کے قریبی ساتھیوں میں تاریخ ساز شخصیت ۔اس فہرست میں پانچویں نمبر پر پاکستان بننے کے بعد سرو مل وشن داس 1947سے 1949 تک سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے ۔ چھٹے نمبر پر سیسل ایڈورڈ گبن المعروف سی ای گبن پاکستان کی دوسری قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے ۔ انکا زمانہ 1955سے 1958 تھا۔ ساتویں نمبر پر چوہدری چندو لال داس پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر ریے ۔ یہ زمانہ 1951 سے 1955 تک کا تھا ۔۔
آٹھویں نمبر پر ۔۔بشیر مسیح بلوچستان کی چھٹی صوبائی اسمبلی کے 1993 سے 1996تک ڈپٹی اسپیکر رہے ۔ اس طرح نویدِ انتھی غیر مسلم شہریوں میں سے نویں ایسے شخص ہیں جو دسویں بار کسی اسمبلی کے اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے ہیں ۔اور یہ سندھ اسمبلی کے پہلے مسیحی ہیں ۔۔یقینا یہ ایک اعزاز کی بات ہے ۔۔ جب مبارک باد دینے کے لئے میری ان سے فون پر بات ہوئی،
تو کہہ رہے تھے۔ بھائی جان ” دنیا بھر سے پاکستانی مسیحو کی خوشی میں چھپی توققات سے خوف آرہا ہے۔ لوگوں کی توققات بڑی اور آئینی اعتبار سے عہدا بڑا لیکن شائد عوامی کاموں کے لئے اتنا مفید نہ ہو ۔۔”
بات انکی درست ہے ۔۔ وہ تاریخ ہو گئے ہیں ۔۔جیسے آج میں نے کھنگال کر بہت سے نام نکال لئے ، یہ تو وہ کچھ بھی نہ کریں تو انکا نام رہے گا۔۔ لیکن لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کے لئے جو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ چھوٹو رام اور سنگھا صاحب راج کماری تلسی داس جیسے کرداروں کی تفصیلی بائیو گرافیاں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے ۔۔۔ انھوں نے کیا بیج بوئے مثلآ سنگھا صاحب کتنے نوجوانوں کو آئی سی ایس کروایا ۔ اور اس زمانے میں آئی سی ایس کے لئے مقامی دیسی مسیحی کو تیار کرنا اور کئی کو کامیاب کروا لینا آج شائد صدر لگوانے سے بھی اگے کا کام ہے ۔۔وہ کس خاندانی پس منظر کے تھے اسکا احاطہ کچھہ پروفیسر سلامت اختر نے کیا ہے۔لیکن مجھے جنرل مٹھا کی کتاب سے جنرل ردرا کی کتاب کا کھوج لگا وہاں سے اندارہ ہؤا کہ یہ عظیم لیڈر کس خاندانی پس منظر سے آئے تھے۔۔ اور مسیح کی ۔۔کی تعلیمات کی روح کے مطابق پسے ہوؤں کی بھلائی کی خاطر وہ کس طرح کے لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہے۔ یہ ایک پی ایچ ڈی کا تھیسیس ہے ۔۔کہ ہزاروں سال سے پستیوں میں گھرے کسی انسانی گروہ کے لئے درد دل رکھنے اور سچے دل سے ان کی بھلائی کے لئے کوشاں انسانوں کو اسی گروہ کے بونا صفت انسانوں سے کیسے کیسے خطرات کا سامنا ہوسکتاہے۔اسکا انداذہ انکی پنجاب اسمبلی کی آخری تقریر میں انھوں نے بڑی تفصیل سے احاطہ کیا ہے۔ نویدِ چاہے کچھ بھی نہ کریں تو وہ تاریخ میں تو رہیں گے۔۔ لیکن تھوڑی سی بےضرر سے پہل سے لوگوں کے دلوں میں نسل در نسل بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔۔ جیسے شہباز بھٹی کا سینٹ کی نشستیں اور اعلیٰ نوکریوں والا کوٹہ حاصل کرنے جیسا تاریخی کام ۔۔ ( گو کہ اقلیتی انتخابی نظام اتنا بانجھ ہے ۔10 ایم این ایز اور 24 اقلیتی ایم پی ایز میں 4 اقلیتی سینٹرز کے اضافے سے صرف سیاسی اشرفیہ کے چار مزید جمہوری غلاموں میں اضافے کے علاوہ عام اقلیتی شہری کی زندگی پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑا لیکِن سرکاری نوکری کے کوٹے کو آئینی تحفظ نے اقلیتوں کے نوجوانوں کے لئے بہت آسانیاں پیدا کی ہیں۔یقینا یہ انکا ایک شاندار اور تاریخی کام۔ہے ۔ )اس طرح کے بے تحاشا مسلسل فیض دینے والے دسیوں کام ہوسکتےہیں ۔۔ مثلا اقلیتی شہریوں کی شفاف گنتی اور اقلیتوں کے لئے شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام جس میں انکو اپنی مذہبی اور قومی شناخت پر اپنے نمائندے چننے کا حق ہو۔۔یہ دونوں کام انکی پارٹی ملک وقوم اور ملک کی اقلیتوں کے مفاد میں یکساں مفید ہیں ۔۔ ایسے آور بھی کئی بے ضرر کام ہوسکتے ہیں۔۔ لیکن یہ دونوں کام اقلیتوں کے 80 فیصد مسائل کے حل کا پیش خیمہ ٹابت ہوسکتے ہیں۔۔۔بس ذرا سی جرات اظہار تھوڑی سی دؤر اندیشی کے ساتھ قیادتِ کو ان کے مفاد میں قائل کرنے کی ضرورت ہے
۔کیونکہ انکی پارٹی وفاق میں بھی بادشاہ گر کی حیثیت میں ہے ایسی کسی پہل جسکا نتیجہ آئینی ترمیم کی صورت آئے ۔۔ایسی کسی کوشش کے ثمرات پورے ملک کی اقلیتوں کو مسلسل بھی مل سکتے ہیں ۔
نوید ایک ٹیلنٹڈ ،متحرک اور سوجھ بوجھ والا شخص اور سیاسی ورکر ہے، اسکے پاس دو راستے ایک جیسے پچھلے پانچ سال بطورِ ایم پی اے عاجزی سے گزاریں ہیں ۔یہ بھی جتنی مدت موقع ملتا ہے گزار کر اگلی بار ایم این اے، پھر سینٹر بن جائے۔ دوسری صورت میں پارٹی اور اقلیتی مفاد میں کچھ ایسا کر جائے جسکی صورت میں پارٹی اور اقلیتوں دونوں کی نظر میں قد آور شخصیت بن کر ابھرے ۔۔امید ہے۔وہ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی شخصیت کو تاریخ ساز بنا لینے کی کوشش کرے گا ۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *