مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


بھٹہ مزدور اور بھٹہ انڈسٹری حکومتی توجہ کے منتظر

بھٹہ مزدور اور بھٹہ انڈسٹری حکومتی توجہ کے منتظر

  Author Editor Hum Daise View all posts

 

سمیر اجمل

بھٹہ پر مزدور پاکستان میں کئے جانے والے مشکل کاموں میں سے ایک کام ہے‘ شدید سردی میں ٹھنڈے پانی میں کھڑے ہو کر مٹی تیار کرنا اور پھر دن بھر مشقت کے ساتھ اینٹیں تیار کرنا کتنا مشکل کام ہے یہ صرف وہی بتا سکتے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں‘ شدید گرمی میں بغیر سائے کے دھوپ میں کھڑے ہو کر جو اینٹیں تیار کی جاتی ہیں ان کا معاوضہ بھی اتنا نہیں ملتا کہ بھٹہ مزدور ان سے اپنا گھر بار چلا سکے جس کی وجہ سے بیماری‘موت یا کسی اور مشکل کی صورت میں انہیں بھٹہ مالک سے قرض حاصل کرنا پڑتا ہے۔ شروع میں تو یہ قرض معمولی ہوتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس قرض میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہ قرض ایک ایسا پہاڑ بن جاتا ہے جس کے نیچے بھٹہ مزدور کی پوری فیملی دب جاتی ہے اور جب تک درد دل رکھنے والی کوئی شخص یا ادارہ مدد نہ کرے اس بوجھ سے نکلنا اس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔پنجاب کے ہر شہر میں خشت بھٹے موجود ہیں اور وہاں پر مفلوک الحال‘قرض کے بوجھ کے تلے دبے ہوئے مزدور بھی موجود ہیں جن کی جبری مشقت (قید) کے حوالے سے اکثر و بیشتر خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں بہت سے ادارے خاص کر این جی اوز ان کی رہائی کے لئے سرگرم عمل بھی نظر آتی ہیں‘ماضی قریب میں پنجاب کے انسانی حقوق کے وزیر اعجاز عالم آگسٹین نے بھی قصور اور دیگر اضلاع میں بھٹہ مزدوروں کی رہائی اور بحالی کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے تھے جن کو عوامی حلقو ں کی جانب سے سراہا گیا تھا تاہم بعدازاں ان کی وزارت ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور بھٹہ مزدور جو مشکلات میں زندگی گزار رہے تھے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں 99.8فیصد اینٹیں ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 40لاکھ کے لگ بھگ افراد بھٹہ مزدور ہیں‘ کم اجرت‘معاشی مسائل اور نامساعد حالات کی وجہ سے ان کے بچے سکول جانے کے بجائے بھٹو ں پر ہی کام کرنے پر مجبور ہیں‘ بھٹہ پر کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ انہیں ماہوار تنخواہ نہیں دی جاتی انہیں اینٹیں بنانے کے عوض معاوضہ دیا جاتا ہے جتنی زیادہ اینٹیں ہوتی ہیں اتنا معاوضہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہ زیادہ اینٹیں تیار کرنے کے لئے اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ جنتی بھی اینٹیں تیار کر لیں ان کو اتنا معاوضہ نہیں ملتا ہے کہ وہ اپنا گھر چلا سکیں جس کی وجہ سے وہ مالکان سے ایڈوانس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور پھر یہ ایڈوانس بڑھتا بڑھتا قرض بن جاتا ہے جس کے عوض وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ بھٹہ مالکان کے بندی بن جاتے ہیں اور انہیں نسل در نسل غلامی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے جبکہ اس حوالے سے بھٹہ مالکان کا موقف یکسر مختلف ہے بھٹہ مالکان کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ وہ بھٹہ مزدوروں کو قرض یا پیشگی دیتے ہیں مگر اس مزدوری کو بندی یا غلام بنانے کی خواہش شامل نہیں ہوتی‘ ان کے حالات دیکھ کر انہیں پیشگی دینا پڑتی ہے‘ جہاں تک اجرت کا معاملہ ہے تو حکومت کی جانب سے بھٹے کے کاروبار کو ابھی تک انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ بھٹہ مالکان نہ تو قرضہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی موسمی حالات یا دیگر وجوہات کی بنا پر کاروبار متاثر ہونے کی صورت میں بھٹہ مالکان کی مالی مدد کی جاتی ہے‘جبکہ دیگر کاروبار جن کو سرکاری سطح پر انڈسٹری کا درجہ دیا گیا انہیں سبسڈی‘قرضے سمیت دیگر تمام سہولیات حاصل ہیں۔ بھٹہ مالکان کا یہ بھی کہنا ہے سال میں چار مہینے نومبر سے فروری تک تو سموگ کے نام پر بھٹو ں کو بند کردیا جاتاہے کہ ان کی وجہ سے سموگ پھیلتی ہے باقی چار ماہ بارشوں کی وجہ سے اینٹیں بنانا ممکن نہیں ہوتا ایسے میں بھٹہ مالکان کے پاس صرف چار سے پانچ مہینے کاروبار کے لئے بچتے ہیں اور اس صورت میں پانچ مہینے کاروبار کرکے بھی بھٹہ مزدوروں اور ان کے خاندان کو پالنا بھٹہ مالکان کے ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے جس کے وہ پورا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ بھٹہ مزدوروں اور بھٹہ مالکان کے تحفظات اپنی جگہ پر درست معلوم ہوتے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے بھٹہ جات کے حوالے سے تاحال کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے سموگ کے تدارک کے لئے خشت بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لئے بھٹہ مالکان کو قرض دینے کا اعلان کیا گیا تھا اس اعلان پر بھی پوری طرح سے عملد رآمد نہیں کیا جا سکاہے۔ حکومت نے کاغذوں میں تو بھٹہ کے کاروبار کو انڈسٹری کا درجہ دے رکھا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں‘ انڈسٹری رولز کے تحت جو سہولیات انڈسٹری مالکان کو دی جاتی ہیں بھٹہ مالکان کو وہ سہولیتں حاصل نہیں ہیں حکومت اگر بھٹہ انڈسٹری پر توجہ دے تو اسے منافع بخش بنا کر اور اینٹو ں کو برآمدات کی صورت میں بیچ کر نہ صرف زردمبادلہ کمایا جا سکتا ہے بلکہ بھٹہ مزدوروں کی حالت زار کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author