Author Editor Hum Daise View all posts
تحقیق و تحریر: خالد شہزاد
تقسیم ہند کے بعد وجود میں آنے والے پاکستان میں جہاں مسلمان اکثریت کو ایک نیا وطن نصیب ہوا، وہیں ملک کی اقلیتی برادریوں کو شناخت، تحفظ اور نمائندگی جیسے بنیادی سوالات کا سامنا تھا۔ ایسے میں ایک مردِ درویش، ایک رہنما، اور ایک آئینی دانشور کی صورت میں جوشوا فضل الدین سامنے آئے — جو نہ صرف پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے بلکہ مسیحی برادری کے لیے اتحاد، خودداری اور قومی ہم آہنگی کا عملی پیغام بھی بنے۔
ابتدائی پس منظر؛
جوشوا فضل الدین کا تعلق پنجاب کے معزز مسیحی خاندان سے تھا۔ قیام پاکستان سے قبل ہی وہ تعلیمی، سماجی اور سیاسی میدان میں متحرک ہو چکے تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص وقار، علم و بصیرت اور قومی سوچ کا توازن نظر آتا تھا۔ انہیں 1947 میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا غیر مسلم نمائندہ منتخب کیا گیا — یہ خود ایک تاریخی قدم تھا۔
تقسیم ہند کے بعد وزیر آباد کا تاریخی خطاب؛
قیام پاکستان کے بعد مذہبی فسادات، نقل مکانی، اور بے یقینی کی کیفیت میں اقلیتی برادری خصوصاً مسیحی عوام شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔ ایسے وقت میں جوشوا فضل الدین نے وزیر آباد میں مسیحی برادری سے تاریخی خطاب کیا۔ اس جلسے میں انہوں نے برادری کو انتشار سے بچنے اور متحد رہنے کی پرزور تلقین کی۔
ان کے الفاظ آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں:
“اگر ہم آج ایک قوم کے طور پر متحد نہ ہوئے تو ہماری آئندہ نسلیں صرف افسوس کریں گی۔ ہمیں پاکستان کا وفادار، فعال، اور تعمیری شہری بننا ہے۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب ایک مسیحی رہنما نے برادری کو داخلی اختلافات سے بلند ہو کر قومی وحدت میں اپنا کردار ادا کرنے کا حوصلہ دیا۔
آزاد مسیحی لیگ: نظریہ یا تنظیم؟
بعض غیر سرکاری ذرائع کے مطابق، جوشوا فضل الدین نے اس وقت “آزاد مسیحی لیگ” کی بنیاد رکھنے کی تجویز دی یا کم از کم اس کا تصور پیش کیا، جس کا مقصد پاکستان میں مسیحی برادری کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانا تھا تاکہ ان کے سیاسی، تعلیمی، معاشی اور مذہبی مسائل کو منظم انداز میں اجاگر کیا جا سکے۔ اگرچہ یہ تنظیم باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوئی، مگر اس کی فکری بنیاد نے بعد میں کئی مسیحی سیاسی دھڑوں کو راستہ دکھایا۔
قانون ساز اسمبلی میں کردار؛
بطور رکنِ دستور ساز اسمبلی، جوشوا فضل الدین نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، مذہبی آزادی، اور مساوی شہریت کے اصولوں پر بھرپور آواز اٹھائی۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے اس نظریے کے حامی تھے کہ:
“پاکستان تمام شہریوں کا ملک ہے، خواہ ان کا مذہب، رنگ یا نسل کچھ بھی ہو۔”
جوشوا فضل الدین نے اپنے تمام خطابات میں بار بار زور دیا کہ پاکستان کو اقلیتوں کے لیے ایک محفوظ اور برابری پر مبنی وطن بننا چاہیے۔
فکری ورثہ اور موجودہ تناظر؛
جوشوا فضل الدین آج اگر ہمارے درمیان نہیں تو ان کی سوچ آج بھی زندہ ہے — خصوصاً ایسے وقت میں جب اقلیتیں خود کو نمائندگی سے محروم، اور قومی پالیسیوں سے الگ تھلگ محسوس کرتی ہیں۔
آج کے مسیحی قائدین اور سیاستدانوں کے لیے جوشوا فضل الدین کا پیغام ایک مشعل راہ ہے:
اقلیتوں کو سیاسی بصیرت اور شعور پیدا کرنا ہوگا
اتحاد اور باہمی احترام کی فضا قائم رکھنی ہوگی
پاکستان سے وفاداری کو اپنا قومی فخر بنانا ہوگا
جوشوا فضل الدین بلاشبہ پاکستان میں مسیحی برادری کے لیے ایک تاریخی اور فکری علامت ہیں۔ وہ نہ صرف پہلے مسیحی قانون ساز تھے بلکہ اقلیتوں کے حقوق کے اولین محافظ بھی۔ ان کی بصیرت اور اتحاد کی اپیل آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ایسے رہنماؤں کی زندگیوں کو اسکولوں اور کالجوں کے نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل اقلیتوں کے اس سنہری ماضی سے آشنا ہو سکے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *