مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


دیہی بچیوں کی تعلیم ۰۰۰۰ایک ادھور ا خواب

دیہی بچیوں کی تعلیم ۰۰۰۰ایک ادھور ا خواب

    Author Editor Hum Daise View all posts

 

 

تحریر و تحقیق : انیسہ کنول

احمد پور شرقیہ، جو ضلع بہاولپور کی سب سے بڑی تحصیلوں میں شمار ہوتی ہے ادارہ شماریات ( Pakistan Bureau of statistics )کی رپورٹ کے مطابق احمد پور شرقیہ کی آبادی تقریباً 11 سے 12 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اس کے باوجود یہاں مجموعی شرحِ خواندگی 45 سے 50 فیصد کے درمیان بتائی جاتی ہے اس میں صنف کے لحاظ سے تعلیم کا فرق کی بات کی جائے تو مردوں کی شرحِ خواندگی تقریباً 55–60٪ اور خواتین کی شرحِ خواندگی 35٪ سے بھی کم یہ فرق صرف اعداد نہیں، بلکہ ایک گہری سماجی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے دیہی علاقوں میں بیٹیوں کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے زرخیز زمینوں، محنتی لوگوں اور گہری دیہی روایات کی سرزمین ہے لیکن اگر یہاں کے تعلیمی معیار پر نظر ڈالی جائے تو ایک افسوسناک تصویر سامنے آتی ہے خصوصاً بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے صورتحال نہایت تشویشناک ہے اگرچہ حکومت کی جانب سے تعلیم عام کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں اور ہر گاؤں میں سکول قائم کرنے کے اعلانات سننے کو ملتے ہیں، مگر زمینی حقائق ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں
ڈاکٹر محمد آصف ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسرتحصیل احمد پور شرقیہ کے سکولز اور بچوں کی تعداد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ، تحصیل بھر میں 147 لڑکوں کے سکول قائم ہیں جن میں 34 مڈل اور 113 پرائمری سکول شامل ہیں اور ان میں زیر تعلیم بوائز کی تعداد 23 ہزار ہے، اسی طرح لڑکیوں کے سکولز کی تعداد 114 ہے ان میں 28 مڈل اور 86 پرائمری سکولز شامل ہیں 19626 اس میں زیر تعلیم بچیاں ہیں
محمد افضل جو کہ پرائمری سکول احمد پور شرقیہ کے استاد اور نواحی گاؤں مہند شریف سے تعلق رکھتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ والدین اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے گھر کے کام کاج میں مصروف رکھتے ہیں کچھ والدین ،،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام،، کی وجہ سے جس میں بچوں اور بچیوں کو وظیفہ کی مد میں کچھ رقم ملتی ہے اس وجہ سے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں اگر یہ نا ملے تو دیہی علاقوں میں تعلیم تعلیم ختم ہو جائے گی ‘جب گاؤں کے لوگوں سے اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا جواب سماجی رویوں اور تعلیمی نظام کی ناکامی دونوں کی عکاسی کرتا ہے- محمد شفیق نے بتایا، کہ میری بیٹی تیسری جماعت کی طالب علم تھی مگر اسے 50 تک گنتی بھی نہیں آتی تھی تو میں کیا سمجھوں کہ میری بچی کا تعلیمی معیار کیا ہو گا میں نے اپنی بچی کو تعلیم سے ہٹا دیا اسے گھرداری سکھائی بالغ ہوئی تو شادی کر دی اس نے بتایا کہ ہمارے یہاں بچیاں پیدا ہوتی ہیں تو گھرداری سکھا دیتے ہیں بالغ ہو جائے تو شادی کر دیتے ہیں اور ان کے پھر بچے بھی ایسے ہی سلسلہ نسل در نسل چل رہا ہے بتاتے ہیں کہ جب ہماری بچیاں سکول جاتی ہیں تو وہاں بھی ان سے جھاڑو لگوائی جاتی ہے، پانی بھروایا جاتا ہے، یا دیگر کام کروائے جاتے ہیں یہاں تک کی جن اساتذہ کے گھر قریب ہیں وہ اپنے اپنے گھروں کا کام بھی بچیوں سے لیتی ہیں ایسے میں تعلیم کا کیا اور ہم بول بھی نہیں سکتے کیونکہ ایک ہی علاقے سے ہیں اور دشمنی مول نہیں لے سکتے ہم انپڑھ غریب محنت کش لوگ ہیں اس لیے ہم تو یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ وہ گھر پر ہی رہیں اور کھیتوں میں کام کر یں اور گھر داری کریں -گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول سکھیل کی پانچویں جماعت کی ایک طالبہ یاسمین نے بتایا ہے کہ میں پڑھ کر نرس بننا چاہتی ہوں، لیکن اسکول میں بہت مشکلات ہیں کبھی ٹیچر نہیں آتیں اور سکول دور ہونے کی وجہ سے امی بھی ڈرتی ہیں مجھے اکیلے بھیجتے ہوئے ایک اور طالبہ اسمأ اسماعیل نے کہاہمارے گاؤں میں ہائی سکول نہیں اگر میں نے پڑھنا ہے تو تین کلومیٹر دور جانا ہوگا والدین اجازت نہیں دیتے-یہ شکایات محض ایک گاؤں تک محدود نہیں احمد پور شرقیہ کے بیشتر دیہات میں یہی صورتِ حال دیکھی جا سکتی ہے سکولوں کی نئی عمارتیں تو موجود ہیں، مگر اساتذہ کی کمی، تعلیمی ماحول کا فقدان، صفائی کے ناقص انتظامات، اور تعلیمی سرگرمیوں کا نہ ہونا ایک عام مسئلہ ہے کئی جگہوں پر اساتذہ باقاعدگی سے سکول نہیں آتے ، اور اگر آ بھی جائیں تو تعلیم دینے کے بجائے وقت گزارنا ہی مقصد بن جاتا ہے- گاؤں کے لوگوں نے یہاں تک بتایا کہ اساتذہ حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں پیچھے اپنے جونئیرز کو کم تنخوا پر رکھتے ہیں اور وہی پڑھاتے ہیں یا پھر بس ٹائم گزاری کرتے ہیں -ایک خاتون ٹیچر جو کہ اوچ شریف سے احمد پور شرقیہ 30 کلو میٹر سفر کر کے آتی ہیں ان کے مطابق اساتذہ پر الزام لگانا آسان ہے، مگر گاؤں کے اسکولوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ایک ٹیچر پر تین جماعتیں ہوتی ہیں ٹریننگ نہیں، نگرانی کمزور ہے، اور والدین بھی دلچسپی نہیں لیتے والدین صرف ،،بینظیر انکم سپورٹ،، وظائف کی وجہ سے بچوں کو بھیجتے ہیں اور اکثر والدین میں شعور نا ہونے کی وجہ سے بیٹیوں کو تعلیم نہیں دلواتے ان کے مطابق بیٹیوں نے گھریلو زمیداریاں سنبھالنی ہوتی ہیں تو ان کو پڑھانا ضروری نہیں –
محکمۂ تعلیم کے ترجمان کا کہنا کہ اساتذہ کی کمی ختم کرنے کے لیے بھرتیاں کی جاتی ہیں دیہی اسکولوں میں سہولیات فراہم کرنے کے لیے فنڈز بھی مختص ہیں مڈل اور ہائی اسکولوں کی اپگریڈیشن بچیوں کے لیے “سکول واؤچر” اور وظائف پر کام ہوتا ہے اور ماں باپ کو بیدار کرنے کے لیے کمیونٹی پروگرام بھی کروائے جاتے ہیں تاہم عملی سطح پر یہ اقدامات وہ نتائج نہیں دے سکے جن کا وعدہ کیا گیا تھا –
نسیم اعجاز مسن جو ایک سماجی کارکن ہیں اور تعلیمی اداروں سے بھی منسلک ہیں کا کہنا ہے کہ فنڈز کا مؤثر استعمال نہ ہونا نگرانی کا کمزور نظام دیہی علاقوں میں سیاسی مداخلت ٹرینڈ اساتذہ کی کمی اور والدین کی آگاہی کا فقدان غریب گھرانوں کا معاشی دباؤ ہونا ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دیہی علاقوں میں تعلیمی فقدان پایا جاتا ہے اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو آنے والی نسلیں بھی تعلیم سے محروم رہیں گی-مگر حل موجود ہے قابلِ عمل سفارشات دیہی اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کا سخت کرنا نظام بچیوں کے لیے محفوظ ہونا ٹرانسپورٹ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فوری فراہمی والدین کے لیے آگاہی مہم ٹیچرز کی ٹریننگ کمیونٹی کی سطح پر نگرانی کمیٹیاں بچیوں کے لیے وظائف اور مراعات کیونکہ جب ایک بچی پڑھتی ہے تو پورا خاندان تعلیم یافتہ ہوتا ہے کیونکہ یہ صورتحال حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے، مگر احمد پور شرقیہ جیسے علاقوں میں یہ حق محض ایک کاغذی وعدہ بن کر رہ گیا ہے حکومتی سطح پر سکولوں کی تعمیر تو ہو چکی ہے، مگر ان سکولوں کو فعال بنانے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آئندہ نسلوں کے لیے بھی تعلیم ایک خواب ہی رہے گی حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف تعلیمی اداروں کی نگرانی کا مؤثر نظام قائم کرے بلکہ دیہاتی علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے خصوصی پالیسی ترتیب دے کیونکہ جب ایک بچی پڑھتی ہے تو وہ صرف اپنی نہیں بلکہ پورے خاندان کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے احمد پور شرقیہ جیسے علاقوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ترقی کا خواب ادھورا رہے گا

Author

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author