مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


ایک اور ایک گیارہ: ایک اشتراکی معرکہ

ایک اور ایک گیارہ: ایک اشتراکی معرکہ

مجھے یاد ہے بچپن سے لڑکپن تک ہمارا معمول یہ رہا کہ اِدھر گرمیوں کی چھٹیاں آغاز ہوتیں اور اُدھر ہم لائل پور یعنی فیصل آباد جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے کیونکہ سکول بند ہونے سے ہفتوں پہلے ہی لائل پور سے نانا جان کی طرف سے دعوتی پوسٹ کارڈ موصول ہوجاتا تھا۔

مجھے یاد ہے بچپن سے لڑکپن تک ہمارا معمول یہ رہا کہ اِدھر گرمیوں کی چھٹیاں آغاز ہوتیں اور اُدھر ہم لائل پور یعنی فیصل آباد جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے کیونکہ سکول بند ہونے سے ہفتوں پہلے ہی لائل پور سے نانا جان کی طرف سے دعوتی پوسٹ کارڈ موصول ہوجاتا تھا۔ دو ماہ وہاں کی کُھلی فضا میں گزارنے کے بعد لاہور کے قدیم علاقہ مزنگ کی گلیوں میں لوٹتے تو جانے کیوں وہ ہمیں پہلے سے بھی تنگ محسوس ہوتیں۔

یوں تو لائل پور میں ہمارے کئی رشتہ دار آباد تھے مگر نانا جان کے ایک پڑوسی، جو غالباً انبالہ سے ہجرت کر کے آئے تھے، اُن کا ایک لڑکا انور جسے سب انّو بھائی کہتے تھے ہم سب کو بہت اچھا لگتا۔ اس کی طبیعت کی شوخی اور حاضر جوابی لاجواب تھی۔

پھر یوں ہوا، جیسا کہ ہوتا آیا ہے، کہ وقت گزرتا گیا۔ ہم سب ”حسبِ رفتار“ بڑے ہوتے گئے۔ ایک روز اچانک ہمارے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ دیکھا تو سامنے انّو بھائی کھڑے ہیں۔ علیک :سلیک کے بعد بے تکلفی سے بولے

”آگے سے ہٹو، بھائی۔ اندر تو آنے دو کہ یہیں سے بھگا دینے والے ہو؟“

میں دروازے سے ہٹ گیا۔ انّو بھائی گھر میں داخل ہوئے تو پیچھے پیچھے کسی برقع پوش خاتون نے بھی دہلیز کے اندر قدم رکھ دیا۔

امی جان صحن میں امرود کے درخت تلے بیٹھی تھیں۔ دونوں مہمانوں نے انھیں سلام کیا اور ان کے پاس ہی چارپائی پر بیٹھ رہے۔ ہمیں یہ معلوم ہونے میں دیر نہ لگی کہ انّو بھائی کی شادی ہو گئی ہے اور وہ اپنی بیگم کو لاہور کی سیر کروانے لائے ہیں۔ کھانے اور چائے کا دور چلا اور ساتھ ساتھ امی جان کی ڈانٹ ڈپٹ اور نصیحتیں بھی

پھر امی جان نے انّو بھائی سے پوچھا ”ارے انّو کے بچے، کیسا لگ رہا ہے شادی کر کے؟“ ”بس آئندہ نہیں کروں گا۔ قسم سے۔“ انّو بھائی نے کانوں کے ہاتھ لگاتے ہوئے اور اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے بے ساختہ جواب دیا۔ امی جان اور ان کی بیگم بھی کھلکھلا کر ہنس دی تھیں۔

تو شرارت سے باز نہیں آئے گا! ”امی جان نے انّو بھائی کے سر پر پیار سے ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا تھا۔

………………… چند ماہ قبل جب

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب نے مجھے مل کر ایک کتاب لکھنے کی دعوت دی تو اپنی طبعی سُست مزاجی کے پیشِ نظر اس ادبی دعوت کے انجام کا تصور کرتے ہوئے پردہ تخیل پر منظر ابھرا کہ ڈاکٹر :سہیل بالکل انّو بھائی کی طرح کانوں کو ہاتھ لگا کر کہہ رہے ہیں

”بس، آئندہ نہیں کروں گا، قسم سے“

مگر صاحب، ڈاکٹر خالد سہیل کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انھوں نے (میرے اشتراک کے باوجود) پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب کے فن و شخصیت پر نہ صرف کتاب مکمل کروا لی بلکہ اسے منزلِ اشاعت سے بھی ہم کنار کروا دیا۔

ابھی میرے ذہن پر چھایا حیرت کا غُبار چھٹا نہ تھا کہ انھوں نے اپنی تازہ ترین انگریزی کتاب میرے سامنے رکھ دی۔

یہ تخلیقی کارنامہ انھوں نے کینیڈا میں مقیم اردو اور انگریزی کی نامور ادیبہ اور شاعرہ زُہرا زبیری صاحبہ کے ساتھ مل کر انجام دیا ہے۔ ان کے اس دسویں ”اشتراکی“ معرکہ نے جہاں ادب دوستی سے اُن کی کمٹ منٹ کا ثبوت فراہم کیا ہے وہاں اس امر کی بھی تصدیق کردی ہے کہ وہ انسان دوست، ترقی پسند اور لبرل ہونے کے ساتھ ساتھ پکے ”اشتراکی“ بھی ہیں۔

میں یہ اعتراف کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ ڈاکٹر خالد سہیل اور زُہرا زبیری کی اس تازہ ترین کتاب ”ون اینڈ ون میک الیون“ یعنی ایک اور ایک گیارہ نے شروع ہی سے مجھے جکڑ لیا۔

یوں تو عالمی ادب میں بھی اور اردو ادب میں بھی مل کر کتابیں مکمل کرنے کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں۔ دو یا تین افراد کی مشترکہ کاوشوں کے مجموعے بھی ہمیں مل جاتے ہیں اور زیادہ لکھاریوں کی تخلیقات پر مبنی ”انتخاب“ بھی ہم دیکھتے آرہے ہیں۔ اس ضمن میں جو ذاتی اور اوّلین حوالہ میرے ذہن میں تازہ ہے وہ والدِ گرامی یزدانی جالندھری صاحب اور ان کے دوست پنڈت رام سرن بھاردواج کا ہے جنھوں نے مل کر آئرلینڈ کے ممتاز ادیب سر ہال کین کے عالمی جنگ کے تناظر میں لکھے گئے مقبول انگریزی ناول ”باربڈ وائر“ کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔

یہ ترجمہ شدہ ناول پہلی بار انیس سو بیالیس میں شائع ہوا تھا۔

ملنے کو اس کے علاوہ بھی متعدد مثالیں مل جائیں گی مگر ”ایک اور ایک گیارہ“ کئی اعتبار سے منفرد اور لائقِ توجہ مجموعہ ہے۔ اس کا ایک اختصاص، مثال کے طور پر، یہ ہے کہ یہ جنوبی ایشیا سے کینیڈا آ بسنے والے دو ہم عصر لکھاریوں کی انگریزی تحریروں پر مشتمل ہے اور پھر یہ تحریریں شاعری اور افسانوں تک محدود نہیں۔ ان میں ڈرامہ، ڈائریوں کے اوراق، تبصرے، انٹرویوز اور مضامین گویا سبھی کچھ شامل ہے۔

اس تجربہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے زُہرا زبیری صاحبہ ڈاکٹر سہیل کے اس جملہ کا حوالہ دیتی ہیں :

مل کر لکھنا (تخلیق کرنا) اکیلے لکھنے (تخلیق کرنے ) سے کہِیں بہتر ہے کیوں کہ اکیلے لکھنا ( تخلیق کرنا) ایک کارِ تنہائی ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ذاتی طور پر اس کتاب نے مجھے آغاز ہی میں اپنے سحر میں لے لیا۔ ایک لکھاری کے طور پر بھی اور سماجی علوم کے ایک طالب علم کی حیثیت میں بھی۔

سماجی علوم میں بھی میرا من چاہا موضوع خاندان اور سماجی تبدیلی رہا ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور زہرا زبیری صاحبہ کی کتاب کی ابتدا ہی میں دونوں نے جس محبت سے اپنی اپنی نانی جان کو یعنی بزرگ نسل کو جس محبت سے یاد کیا ہے اس محبت کے جِلو میں ہمیں سماجی روایات اور ثقافتی مزاج کی واضح جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں اور پھر لکھنے والے کی ابتدائی ذہنی تربیت سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

ان مضامین سے آگے بڑھا تو ڈاکٹر سہیل صاحب کے مضمون ”لکھاری اور سماجی تبدیلی“ نے مجھے روک لیا۔

اس پُرمغز مضمون میں جہاں وہ ایک تخلیق کار اور ایک سماجی کارکن کے فرق کی وضاحت کرتے ہیں وہاں یہ اشارہ بھی کرتے ہیں کہ تخلیقی ادب کو ظاہری مقصدیت ہی میں گُم ہو کر نہیں رہ جانا چاہیے بلکہ اسے تخلیق کار کے باطن کا بھی آئینہ دار ہونا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ادب کا کام تفریحِ طبع کا ساماں کرنا ہی نہیں بلکہ روشن خیالی کی ترویج بھی ہے اور قیامِ امن کی دعوت بھی۔

زُہرا زبیری صاحبہ نے بھی اپنی تحریروں اور انٹرویو میں اپنی ادبی کمٹ منٹ کا اظہار انتہائی دیانت داری سے کیا ہے اور بعض امور میں وہ اپنے شریک مصنف سے اختلافِ رائے کا اظہار کرنے سے بھی نہیں کتراتیں مگر ان کا اندازِ اظہار اس قدر شائستہ اور دل پذیر ہے کہ وہ کسی طرح کی بد مزگی پیدا کرنے کے بجائے تخلیقی لطف اور سرشاری کا باعث بنتا ہے۔

اس انتخاب میں شامل ہر تحریر ہی ”منتخب“ ہے اور اپنی جگہ اہم ہے۔

جہاں تک نظموں کا تعلق ہے تو اس مجموعے میں شامل زہرا صاحبہ کی بتیس۔ جبکہ ڈاکٹر سہیل کی۔ گیارہ۔ نظمیں ہمارے سامنے موضوعات اور اسلوب کے تنوع کا یاک ایسا رنگا رنگ گل دستہ ہیش کرتی ہیں کہ جس کی ملی جلی مہک سے آنے والے زمانوں کے اذہان بھی علم و فرحت پائیں گے۔

زُہرا صاحبہ کی نظموں کے موضوعات۔ محبت اور دوستی سے لے کر تصادم اور استحصال۔ تک کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ جبکہ خالد سہیل صاحب کی دل نشیں نظمیں امن و آزادی، انسانی تفریق، انسان دوستی اور درویشی کے موتی لُٹاتی محسوس ہوتی ہیں۔

اسی طرح زہرا صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ اور ڈاکٹر سہیل صاحب کا تبصرہ بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

یُوں تو اِس کتاب میں شامل ہر بابِ تخلیق دراصل ایک جداگانہ مضمون کا متقاضی ہے مگر افسانوں کا باب بہرصورت انفرادی توجہ اور تحسین کا مستحق ہے۔ اس پر مضمون قرض رہا۔

مگر صاحب، یہ فرض یا قرض تو ادا ہوتے ہوتے ہو گا۔ کوشش ہوگی کہ یہ قرض سُود بڑھنے سے پہلے ہی ادا ہو جائے مگر ٹھہرئیے، ابھی تو ہم نے اصل زر ہی سے پورے طور استفادہ نہیں کیا۔ ابھی سے سُود و زیاں کی باتیں کیوں؟

Editor Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos