مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


تھر ایکسپریس کی بندش’ سندھ کے لوگ اپنے پیاروں سے ملنے سے محروم

تھر ایکسپریس کی بندش’ سندھ کے لوگ اپنے پیاروں سے ملنے سے محروم

رانا مالہی ”ہم دیس ” کی ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر ہیں کراچی میں رہتے ہیں اور پچھلے کیی سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں انسنانی حقوق، منارٹی رائیٹس، سمیت دیگر اہم موضوعات پر لکھتے ہیں

رانا مالہی


پاکستان اور بھارت کی علیحدگی کے بعد سے مسلسل دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی وہ خارجہ پالیسی کو لیکر تناو ابھی بھی برقرار ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں رہنے والی عوام متاثر اور مایوس ہیں-دونوں ملکوں کے بٹوارے کے دوران سندھ سے کافی ہندو ہندوستان چلے گئے اور کئی مہاجر انڈیا سے ہجرت کرکے سندھ کے شہری علاقوں میں آکر بس گئے تھے-آج بھی سندھ میں رہنے والے ہندوؤں کے کئی رشتے دار بارڈر کے اس پار رہتے ہیں اپنے پیاروں سے ملنے کے آج بھی بے قرار ہیں۔۱۹۵۵کی جنگ کے بعد 2006 میں اکتالیس سال بعد دونوں ملکوں کے لوگوں کے دل میں اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے ایک امید کی کرن جاگی تھی جب کھوکراپار سے مونابائو روٹ پر چلنے والی ٹرین تھر ایکسپریس کو دوبارہ عوام کے کھول دیا گیاتھا جس سے سندھ کے ہندوؤں سمیت شہری علاقوں میں رہنے والے مہاجر بھی اس ٹرین کے ذریعے اپنے پیاروں سے ملنے لگے تھے۔ کیونکہ پاکستان سے انڈیا جانے کے لیے صوبہ پنجاب سے سمجھوتہ ایکسپریس اور صوبہ سندھ سے تھر ایکسپریس چلتی تھی۔ لیکن 2019 میں کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت نے اسے دوبارہ بند کرنے کا حکم دیا تھا جس سے سندھ میں رہنے والے ہزاروں لوگوں کی بارڈر کے اس پار اپنے پیاروں سے ملاقات بند ہو گیی تھی –
آج بھی سندھ میں لاکھوں ہندو خاندان تھر ایکسپریس ٹرین کے دوبارہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں، اپنے پیاروں سے ملنے اور اپنی مذہبی رسومات کو ادا کرنے انتظار میں ہیں -کراچی سے تقریا 300 کلومیٹر دور سندھ کے شہر عمرکوٹ میں رہنے والے مولچند کھتری کی بھی کہانی کچھ مختلف نہیں، پچھلے ستائیس سال سے ان کی بڑی بہن اپنے پورے خاندان کے ساتھ ہندوستان میں ہیں اور مولچند کھتری اور ان کے گھر والے 27 سال سے ابھی تک اپنی بہن سے مل نہیں پائے۔مولچند کھتری کا کہنا تھا کہ جب ان کی بڑی بہن یہاں سے گئی تو ان کی عمر 8 سال کی تھی اور اس کے بعد سے ان کی اپنی بہن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی’ لیکن اب موبائل اور انٹرنیٹ آنے کے بعد ان سے بات ہوتی ہے’ہم نے ابھی اپنے پاسپورٹ اوردیگر ڈاکومنٹس بنوائے تھے لیکن تھر ایکسپریس ٹرین بند ہوگئی جبکہ پنجاب سے سمجھوتہ ایکسپریس اور وگھا بارڈر کے راستے جانے کے ہم اخراجات نہیں اٹھا سکتے -تھر ایکسپریس ہی ہمارے لیے سستا اور آسان ذریعہ ہے جس سے ہم بارڈر کے اس پار اپنے پیاروں سے مل سکتے ہیں۔مولچند کھتری سمیت سندھ میں ہندوؤں کے کئی ایسے خاندان ہیں جو اپنے پیاروں سے ملنا چاہتے ہیں اور انڈیا جاکر ہریدوار اور گنگا ندی میں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ سے قومی اسمبلی کے اقلیتی رکن اس تھر ایکسپریس ٹرین کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اسمبلی میں آواز اٹھاتے رہے ہیں- سندھ کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب انڈیا کے سکھوں کے لیے کرتارپور کھل سکتا ہے تو سندھ میں رہنے والے لاکھوں ہندوؤں کے تھر ایکسپریس ٹرین کیوں نہیں کھل سکتی۔سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے اور سندھ میں مختلف درگاہوں کے ہزاروں لاکھوں مریدین انڈیا میں رہتے ہیں، جیسے کہ حر جماعت، غوثیہ جماعت، سروری جماعت، جیلانی جماعت سمیت دیگر درگاہوں کے مرید جو اپنے مرشد کی درگاہ پر حاضری دینے آنا چاہتے ہیں، لیکن ٹرین کی بند ش کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے – 2017 کی مردمشماری کے مطابق پاکستان میں تقریا 7 ملین غیر مسلم ہیں جس میں سے 3.6 ملین ہندو ہیں اور جن کی سب سے بڑی تعداد سندھ میں رہتی ہے اور وہ کھوکراپار اور مونابائو بارڈر کے پاس رہتے ہیں-تھر ایکسپریس نہ صرف سندھ میں رہنے والے ہندوؤں کے لیے اہمیت کی حامل ہے بلکہ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے مہاجرین کے لیے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ 1965 کی جنگ کے بعد اس ٹرین کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا بڑا مطالبہ یہی تھا۔ سندھ میں ہندوؤں کے ساتھ یہاں پر رہنے والے مہاجروں کے لیے یہ ٹرین بہت اہمیت رکھتی یے کیونکہ بٹوارے کے بعد مہاجرین کی بڑی تعداد سندھ میں آباد ہوئی تھی اور ان کے کئی قریبی رشتے دار آج بھی انڈیا میں رہتے ہیں جن سے یہ ملنا چاہتے ہیں- اس ٹرین کے بند ہونے کی وجہ سے لوگ نہ صرف اپنے پیاروں سے مل نہیں پا رہے بلکہ اس کی وجہ ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ اس ٹرین کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان کاروبار بھی ہوتا تھا اس معاملے کے حل کے لیے دونوں ملکوں کو بیٹھ کر بات کرنی چاہیےکیونکہ سندھ کے لاکھوں لوگ امید لگاکر بیٹھے ہیں کہ اگلی منتخب حکومت اس مسلئے کو پہلی ترجیح دیگی

رانا مالہی ”ہم دیس ” کی ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر ہیں کراچی میں رہتے ہیں اور پچھلے کیی سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں انسنانی حقوق، منارٹی رائیٹس، سمیت دیگر اہم موضوعات پر لکھتے ہیں

HumDaise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos