Author Hum Daise View all posts
تحریر: سرور سکندر
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے حالیہ دنوں میں ایک بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں موجود معدنیات اتنی ہیں کہ اگر انہیں استعمال میں لایا جائے تو پاکستان کا بیرونی قرضہ ادا کیا جا سکتا ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک بڑی امریکی کمپنی جلد ہی اس شعبے میں سرمایہ کاری کرے گی -بظاہر یہ ایک امید افزا بیان ہے جو پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے ایک نئی روشنی دکھا رہا ہے لیکن اس بیان نے گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں میں ایک نئی بے چینی بھی پیدا کر دی ہے سوال یہ ہے کہ جس خطے کی زمینوں، پہاڑوں اور وسائل سے ملکی قرضہ اتارنے کی بات کی جا رہی ہے کیا اس خطے کے عوام کو ان وسائل پر کوئی اختیار حاصل ہے؟ کیا انہیں وہ آئینی اور جمہوری حقوق حاصل ہیں جن کے بغیر کوئی بھی ترقی خوش آئند نہیں ہو سکتی؟گلگت بلتستان میں اب یہ آوازیں زور پکڑنے لگی ہیں کہ سرمایہ کاری سے قبل یہاں کے عوام کو ان کا بنیادی حق دیا جائے سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنایا جائے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دی جائے، این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دیا جائے اور خالصہ سرکار جیسے کالے قوانین کا خاتمہ کر کے زمینیں ان کے اصل مالکان کو واپس کی جائیں
یہ وہ مطالبات نہیں جو کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت کیے جا رہے ہوں بلکہ یہ وہ بنیادی انسانی، جمہوری اور آئینی حقوق ہیں جو ہر شہری کا حق ہوتے ہیں لیکن جب بھی گلگت بلتستان کے عوام ان کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر بغاوت کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے حقوق کے لیے بولنے والوں کو قوم پرست کہا جاتا ہے اور ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ظلم اور استحصال سے نجات دلانا تھا لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر ہی ایک خطہ ایسا ہے جہاں کی عوام اپنے حقوق کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے قائداعظم کے بعد کے ادوار پر نظر ڈالیں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ اقرباپروری کرپشن اور ناانصافیوں سے بھری پڑی ہےگلگت بلتستان کے عوام بھی اسی نظام کے ایک ایسے کونے میں کھڑے ہیں جہاں سے صرف مایوسی کی بازگشت سنائی دیتی ہے
گلگت بلتستان کو ایک طرف تو کشمیر کے ساتھ جوڑ کر متنازعہ قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہاں سے اربوں روپے کا ریونیو حاصل کیا جاتا ہے سیاحت معدنیات پانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کی قربانیوں کا صلہ کیا ہے؟ نہ شناخت، نہ حق نہ نمائندگی نہ اختیار۔
سی پیک جو کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاشی ترقی کا عظیم منصوبہ ہے وہ بھی اسی خطے سے گزر رہا ہے لیکن گلگت بلتستان کو اس راہداری کے فوائد سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی رویہ کسی مہذب ریاست کے شایانِ شان ہے؟
آج گلگت بلتستان کے عوام صرف اپنے لیے کوئی خاص رعایت نہیں مانگ رہے بلکہ وہ وہی چیز مانگ رہے ہیں جو پاکستان کے دیگر صوبوں کو حاصل ہے آئینی حیثیت، جمہوری نمائندگی، مالی حقوق، اور زمین پر اختیار یہ خطہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے کارگل ہو یا سیلاب دہشت گردی ہو یا زلزلے گلگت بلتستان کے سپوتوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا لیکن بدلے میں انہیں صرف وعدے دعوے اور تسلیاں ملیں۔
اگر ریاست اب بھی آنکھیں بند رکھے گی تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں بلوچستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے وہاں بھی حقوق کی بات کو بغاوت سمجھا گیا، اور نتیجہ سب کے سامنے ہے گلگت بلتستان میں ابھی وقت ہے کہ مسائل کا حل نکالا جائے۔
یہ کالم کسی نفرت بغاوت یا انتشار کے لیے نہیں لکھا گیا بلکہ ایک پرخلوص صدا ہے کہ اس خطے کو سنا جائے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنایا جائے قومی اسمبلی سینیٹ اور دیگر اداروں میں مکمل نمائندگی دی جائے سی پیک میں سے کچھ منصوبے مقامی عوام کے لیے مختص کیے جائیں خالصہ سرکار جیسے استعماری قوانین کو ختم کر کے زمینیں اصل مالکان کو واپس دی جائیں یہ مطالبات پاکستان کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط بنائیں گے
اگر ان آوازوں کو آج بھی دبایا گیا تو کل یہی آوازیں تحریکوں میں بدل سکتی ہیں اور یہ تحریکیں پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ وہ حکمران ہوں گے جو آج سننے سے انکار کر رہے ہیں
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *