مدیراعلی: ندیم اجمل عدیم


گلگت بلتستان : خواتین کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ ‘سول سوسائٹی کے لئے لمحہ فکریہ

گلگت بلتستان : خواتین کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ ‘سول سوسائٹی کے لئے لمحہ فکریہ

      Author Hum Daise View all posts

 

 

 

شیریں کریم

دریائے گلگت کے گدلے اور بے رحم پانی میں دو دنوں سے ایک ماں ایک بیٹی کی تلاش جاری ہے دنیور میون گالی کے قریب دریا میں ڈوب کر لاپتہ ہونے والی خاتون کی تلاش ریسکیو 1122 گلگت اور دنیور کے اہلکاروں کی جانب سے دوسرے روز بھی جاری ہے۔ پانی کی گدلا پن اور تیز بہاؤ کے باعث سرچ آپریشن میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ریسکیو اہلکاروں نے جائے وقوعہ سے لے کر این ایس گراؤنڈ مناور تک مختلف مقامات پر تلاش کی، تاہم تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔دنیور کی رہائشی، نگر سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ خاتون نے جمعہ کے روز پل سے چھلانگ لگا کر مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ہر سال متعدد خواتین مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ گھریلو تشدد ہے۔ خواتین گھر کے حالات سے تنگ آ کر اپنی جان لے لیتی ہیں۔ بعض اوقات گھر والے ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں کہ ایک عورت کے پاس آخری راستہ خودکشی ہی رہ جاتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین اس نہج تک کیسے پہنچتی ہیں؟ وہ اپنی زندگی جیسی عظیم نعمت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیوں اور کیسے کرتی ہیں؟ کیا جو عورت خودکشی کرتی ہے، وہی قصوروار ہوتی ہے؟ کیا اس کے گھر والے بے قصور ہوتے ہیں؟ کیا ہمیشہ عورت ہی “ذہنی مریضہ” ہوتی ہے؟ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جو وہ زندگی کا چراغ خود گل کر دیتی ہے؟یہ سلسلہ رکنے کا نام کیوں نہیں لے رہا؟ لوگ اپنے پیاروں کو اتنی اذیت کیوں دیتے ہیں کہ وہ اپنی جان لینے پر مجبور ہو جائیں؟ کبھی غربت، کبھی غیرت، کبھی گھریلو تشدد آخر کب تک ہم اپنے پیاروں کو ان وجوہات کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے؟پولیس رپورٹ کے مطابق، سال 2023 میں 47 جبکہ 2024 میں 46 افراد نے خودکشی کی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 2025 کے آغاز سے یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق خودکشی کی بنیادی وجوہات گھریلو ناچاقی اور تشدد ہیں۔ کچھ کیسز میں خواتین کو قتل کر کے اسے خودکشی کا نام دے دیا جاتا ہے اکثر یہ کیسز پسند کی شادی سے متعلق ہوتے ہیں۔ ایسی خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے، اور کیسز رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ اگر رپورٹ ہو بھی جائے، تو قاتل اکثر خاندان کا کوئی فرد ہوتا ہے جسے والدین معاف کر دیتے ہیں، اور وہ بغیر سزا کے آزاد ہو جاتا ہے۔ یوں ہوا کی بیٹی کو انصاف کبھی نہیں ملتا۔گلگت بلتستان میں خودکشیوں کی روک تھام کے لیے کئی ادارے اور این جی اوز کام کر رہے ہیں، لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ محض کمیٹیاں بنا لینے یا سیمینار منعقد کر لینے سے خودکشیوں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ ادارے صرف اعداد و شمار جمع کر سکتے ہیں، روک تھام ان کے بس کی بات نہیں۔کئی خواتین گھریلو ناچاقیوں کے بعد پولیس اسٹیشن کا رخ کرتی ہیں، مگر جب وہ واپس گھر جاتی ہیں تو نہ صرف گھر والے بلکہ پورا معاشرہ ان پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ ایسی خواتین کے لیے کوئی پناہ گاہ، شیلٹر ہوم یا دارالامان موجود نہیں جہاں وہ پناہ لے سکیں یا اپنے مسائل بیان کر سکیں۔ نہ ان کی سنوائی ہوتی ہے، نہ مسائل کا حل نکلتا ہے۔ پولیس اسٹیشن جانا یا گھر والوں کے خلاف قدم اٹھانا بھی ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا، اور یوں وہ مجبور ہو کر اپنی زندگی ختم کر لیتی ہیں۔آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں خواتین کے مسائل سننے والا کوئی نہیں۔ اگر کوئی سن بھی لے، تو عملی مدد فراہم نہیں کی جاتی۔ ہر شخص صرف اپنی ترقی اور زندگی کی دوڑ میں مصروف ہے۔حکومت گلگت بلتستان سے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ خاص طور پر خواتین اراکین اسمبلی، جو اکثر خاموش رہتی ہیں، انہیں چاہیے کہ خواتین کے لیے معاشی معاونت، ذہنی صحت کی سہولیات، اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پائیدار پالیسیاں ترتیب دی جائیں تاکہ وہ ایسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوں۔آخر کب تک ہم صرف خودکشیوں کی تعداد گنتے رہیں گے؟

Author

Hum Daise
ADMINISTRATOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos

Author