Author Editor Hum Daise View all posts
سموئیل بشیر
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کا اطلاق اکثر اقلیتوں پر امتیازی طور پر ہوتا آیا ہے۔ ان قوانین کے تحت متعدد افراد پر جھوٹے یا غیر مصدقہ الزامات لگائے گئے، جن میں اکثر اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نبیل مسیح، ضلع قصور کے نوجوان مسیحی لڑکے کی موت اس سلسلے کی ایک تازہ اور المناک کڑی ہے-
17 ستمبر 2016 میں 16 سالہ نبیل مسیح پر الزام لگایا گیا کہ اس نے فیس بُک پر توہین خانہ کعبہ کی ایک تصویر شئیر کی ہے۔ 18 ستمبر 2016 کو اختر علی نامی بندہ نے نبیل مسیح کے خلاف ایف آئی آر تھانہ پھول نگر، ضلع قصور درج کروائی ۔ نبیل نمبر 66 گاؤں دینہ ناتھ بھائی پھیرو کا رہائشی ہے وہاں سے اسےگرفتار کیا گیا۔ توہین مذہب کی دفعات 295 اور 295 اے لگا کر اسے جیل بھیج دیا گیا۔ 2018 میں ایڈیشنل سیشن جج نوید اقبال نے نبیل کو 10 سال قید کی سزا سنائی۔ یہ بچہ چوتھی جماعت تک پڑھا تھا، متوسط طبقہ سے اس کا تعلق تھا۔ جیل میں اس کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔ 4 سال 4 ماہ قید رہنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے 2021 میں ضمانت پر رہا ہو کر گھر آگیا۔ ذہنی دباؤ، خوف، اور تنہائی نے اس کی صحت کو تباہ کر دیا تھا۔خر مالی مشکلات اور خراب صحت کی وجہ سے 10 دن لاہور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 31 جولائی کی رات اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، خاص طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایسے کیسز پر اپنی کئی رپورٹس میں شدید تحفظات کا اظہار کرتےہیں۔ پاکستان اور انٹرنیشنل انسانی حقوق کی تنظیموں نے نبیل کے کیس میں مؤقف اختیار کیا کہ نبیل مسیح کم عمرہے، اور اس کے خلاف الزامات غیر واضح ہیں- اس کیس کی تفصیلات پر بات کرتے ہوئے راہ نجات فاونڈیشن کے چیئرمین صفدر چوہدری صاحب کا کہنا تھا کہ قانونی اور آئینی نکتہ نظر سے ہر فرد کو منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہے۔ اس کی ضمانت آئین پاکستان کا آرٹیکل 10 اے دیتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت ریاست تمام شہریوں کو مساوی سلوک کی پابند ہے ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، خاص طور پر جب معاملہ اقلیتوں اور توہین مذہب سے متعلق ہو۔
نبیل مسیح تو اس دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن ہمارے اور ارباب اختیار کے لئے کئی اہم سوالات اٹھا گیا ہے:
کیا ریاست مذہبی اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہو چکی ہے؟
کیا جیلوں میں قیدیوں کو بنیادی انسانی سہولتیں دی جا رہی ہیں؟
کیا عدالتی نظام اقلیتوں کو انصاف دے رہا ہے؟
کیا توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی جائےگی؟
ممکنہ اصلاحات اورتجاویز:
توہینِ مذہب کے مقدمات میں فوری اور شفاف تحقیقات کی شرط لازمی بنائی جائے؛
قیدیوں کے لیے طبی سہولیات اور نگرانی کا مؤثر نظام قائم ہو؛
جھوٹا الزام لگانے والوں کو سخت سزا دینے کے لئے موثر قانون سازی کی جائے؛
اقلیتوں کے خلاف مقدمات میں نگرانی کے لیے آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے۔
نبیل مسیح اب ہم میں نہیں رہا، مگر اس کی کہانی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہر اس فرد کی آواز بن گئی ہے جو مذہب کے نام پر استحصال کا شکار ہے۔ اس کا جانا ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے – کیا ہم بطور قوم مذہب کے نام پر ظلم برداشت کرتے رہیں گے یا انصاف کے لیے آواز اٹھائیں گے؟


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *